فرماتا ہے یہ تو تھے احکام حج اور ان پر جو جزا ملتی ہے اس کا بیان۔ اب اور سنو جو شخص حرمات الٰہی کی عزت کرے یعنی گناہوں سے اور حرام کاموں سے بچے، ان کے کرنے سے اپنے آپ کو روکے اور ان سے بھاگا رہے اس کے لیے اللہ کے پاس بڑا اجر ہے۔ جس طرح نیکیوں کے کرنے پر اجر ہے اسی طرح برائیوں کے چھوڑنے پر بھی ثواب ہے۔ مکہ حج عمرہ بھی حرمات الٰہی ہیں۔ تمہارے لیے چوپائے سب حلال ہیں ہاں جو حرام تھے وہ تمہارے سامنے بیان ہو چکے ہیں۔ یہ جو مشرکوں نے بحیرہ، سائبہ، وصیلہ اور حام نام رکھ چھوڑے ہیں یہ اللہ نے نہیں بتلائے۔
اللہ کو جو حرام کرنا تھا بیان فرما چکا جیسے «الْمَيْتَةُ وَالدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنزِيرِ وَمَا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللَّـهِ بِهِ وَالْمُنْخَنِقَةُ وَالْمَوْقُوذَةُ وَالْمُتَرَدِّيَةُ وَالنَّطِيحَةُ وَمَا أَكَلَ السَّبُعُ إِلَّا مَا ذَكَّيْتُمْ»[5-المائدہ:3] مردار جانور بوقت ذبح بہا ہوا خون سور کا گوشت اللہ کے سوا دوسرے کے نام پر مشہور کیا ہوا، گلا گھٹا ہوا وغیرہ۔ تمہیں چاہے کہ بت پرستی کی گندگی سے دور رہو۔
«مِنَ» یہاں پر بیان جنس کے لیے ہے، اور جھوٹی بات سے بچو۔ اس آیت میں شرک کے ساتھ جھوٹ کو ملادیا جیسے آیت «قُلْ اِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّيَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ وَالْاِثْمَ وَالْبَغْيَ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَاَنْ تُشْرِكُوْا باللّٰهِ مَا لَمْ يُنَزِّلْ بِهٖ سُلْطٰنًا وَّاَنْ تَقُوْلُوْا عَلَي اللّٰهِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ»[7-الأعراف:33] یعنی ” میرے رب نے گندے کاموں کو حرام کر دیا خواہ وہ ظاہر ہوں خواہ پوشیدہ۔ اور گناہ کو سرکشی کو اور بےعلمی کے ساتھ اللہ پر باتیں بنانے کو “۔ اسی میں جھوٹی گواہی بھی داخل ہے۔
بخاری و مسلم میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کیا میں تمہیں سب سے بڑا کبیرہ گناہ بتاؤں؟ صحابہ نے کہا ارشاد ہو، فرمایا: اللہ کے ساتھ شریک کرنا ماں باپ کی نافرمانی کرنا پھر تکیہ سے الگ ہٹ کر فرمایا: اور جھوٹ بولنا اور جھوٹی شہادت دینا ۔ اسے باربار فرماتے رہے یہاں تک کہ ہم نے کہا کاش کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اب نہ فرماتے ۔ [صحیح بخاری:2654]
مسند احمد میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خطبے میں کھڑے ہو کر تین بار فرمایا: جھوٹی گواہی اللہ کے ساتھ شرک کرنے کے برابر کر دی گئی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مندرجہ بالا فقرہ تلاوت فرمایا ۔ [سنن ابوداود:3599،قال الشيخ الألباني:ضعیف]
اور روایت میں ہے کہ صبح کی نماز کی بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہو کر یہ فرمایا ۔ [سنن ابوداود:3599،قال الشيخ الألباني:ضعیف]
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا یہ فرمان بھی مروی ہے ”اللہ کے دین کو خلوص کے ساتھ تھام لو باطل سے ہٹ کر حق کی طرف آ جاؤ۔ اس کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانے والوں میں نہ بنو۔“
پھر مشرک کی تباہی کی مثال بیان فرمائی کہ ” جیسے کوئی آسمان سے گر پڑے پس یا تو اسے پرند ہی اچک لے جائیں گے یا ہوا کسی ہلاکت کے دور دراز گڑھے میں پہنچا دے گی “۔ چنانچہ کافر کی روح کو لے کر جب فرشتے آسمان کی طرف چڑھتے ہیں تو اس کے لیے آسمان کے دروازے نہیں کھلتے اور وہیں سے وہ پھینک دی جاتی ہے اسی کا بیان اس آیت میں ہے۔
یہ حدیث پوری تفصیل کے ساتھ سورۃ ابراہیم میں گزر چکی ہے سورۃ الانعام میں ان مشرکوں کی ایک اور مثال بیان فرمائی ہے «قُلْ أَنَدْعُو مِن دُونِ اللَّـهِ مَا لَا يَنفَعُنَا وَلَا يَضُرُّنَا وَنُرَدُّ عَلَىٰ أَعْقَابِنَا بَعْدَ إِذْ هَدَانَا اللَّـهُ كَالَّذِي اسْتَهْوَتْهُ الشَّيَاطِينُ فِي الْأَرْضِ حَيْرَانَ لَهُ أَصْحَابٌ يَدْعُونَهُ إِلَى الْهُدَى ائْتِنَا قُلْ إِنَّ هُدَى اللَّـهِ هُوَ الْهُدَىٰ وَأُمِرْنَا لِنُسْلِمَ لِرَبِّ الْعَالَمِينَ»[6-الأنعام:71] ” آپ صلی اللہ علیہ وسلم کہہ دیجئیے کہ کیا ہم اللہ تعالیٰ کے سوا ایسی چیز کو پکاریں کہ نہ وه ہم کو نفع پہنچائے اور نہ ہم کو نقصان پہنچائے اور کیا ہم الٹے پھر جائیں اس کے بعد کہ ہم کو اللہ تعالیٰ نے ہدایت کر دی ہے، جیسے کوئی شخص ہو کہ اس کو شیطانوں نے کہیں جنگل میں بے راه کر دیا ہو اور وه بھٹکتا پھرتا ہو، اس کے کچھ ساتھی بھی ہوں کہ وه اس کو ٹھیک راستہ کی طرف بلا رہے ہوں کہ ہمارے پاس آ۔ آپ کہہ دیجئیے کہ یقینی بات ہے کہ راه راست وه خاص اللہ ہی کی راه ہے اور ہم کو یہ حکم ہوا ہے کہ ہم پروردگار عالم کے پورے مطیع ہو جائیں “۔ یہ اس کی مثل کے ہے جسے شیطان باؤلا بنا دے۔