یہاں مشرکین کو متنبہ کیا جاتا ہے کہ ” وہ گھر جس کی بنیاد اول دن سے اللہ کی توحید پر رکھی گئی ہے تم نے اس میں شرک جاری کر دیا۔ اس گھر کے بانی خلیل اللہ علیہ السلام ہیں سب سے پہلے آپ علیہ السلام نے ہی اسے بنایا “۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ نے سوال کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سب سے پہلے کون سی مسجد بنائی گئی؟ فرمایا: مسجد الحرام ۔ میں نے کہا پھر؟ فرمایا: بیت المقدس ۔ میں نے کہا ان دونوں کے درمیان کس قدر مدت کا فاصلہ ہے؟ فرمایا: چالیس سال کا ۔ [صحیح بخاری:3366]
اللہ کا فرمان ہے آیت «إِنَّ أَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِي بِبَكَّةَ مُبَارَكًا وَهُدًى لِّلْعَالَمِينَ فِيهِ آيَاتٌ بَيِّنَاتٌ مَّقَامُ إِبْرَاهِيمَ»[3-آل عمران:97،96] ، دو آیتوں تک۔ اور آیت میں ہے «وَعَهِدْنَا إِلَىٰ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ أَن طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْعَاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ»[2-البقرہ:125] ” ہم نے ابراہیم واسماعیل علیہم السلام سے وعدہ لیا کہ میرے گھر کو پاک رکھنا “ الخ۔
بیت اللہ شریف کی بنا کا کل ذکر ہے ہم پہلے لکھ چکے ہیں اس لیے یہاں دوبارہ لکھنے کی ضرورت نہیں۔ یہاں فرمایا ” اسے صرف میرے نام پر بنا اور اسے پاک رکھ یعنی شرک وغیرہ سے اور اسے خاص کر دے ان کے لیے جو موحد ہیں “۔
طواف وہ عبادت ہے جو ساری زمین پر بجز بیت اللہ کے میسر ہی نہیں ناجائز ہے۔ پھر طواف کے ساتھ نماز کو ملایا قیام، رکوع، سجدے، کا ذکر فرمایا اس لیے کہ جس طرح طواف اس کے ساتھ مخصوص ہے نماز کا قبلہ بھی یہی ہے ہاں اس کی حالت میں کہ انسان کو معلوم نہ ہو یا جہاد میں ہو یا سفر میں ہو نفل نماز پڑھ رہا ہو تو بیشک قبلہ کی طرف منہ نہ ہونے کی حالت میں بھی نماز ہو جائے گی «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔
اور یہ حکم ملا کہ ” اس گھر کے حج کی طرف تمام انسانوں کو بلا “۔ مذکور ہے کہ آپ علیہ السلام نے اس وقت عرض کی کہ باری تعالیٰ میری آواز ان تک کیسے پہنچے گی؟ جواب ملا کہ ” آپ کے ذمہ صرف پکارنا ہے آواز پہنچانا میرے ذمہ ہے “۔ آپ علیہ السلام نے مقام ابراہیم پر یا صفا پہاڑی پر ابو قیس پہاڑ پر کھڑے ہو کر ندا کی کہ ”لوگو! تمہارے رب نے اپنا ایک گھر بنایا ہے پس تم اس کا حج کرو۔“
پہاڑ جھک گئے اور آپ کی آواز ساری دنیا میں گونج گئی۔ یہاں تک کہ باپ کی پیٹھ میں اور ماں کے پیٹ میں جو تھے انہیں بھی سنائی دی۔ ہرپتھر درخت اور ہر اس شخص نے جس کی قسمت میں حج کرنا لکھا تھا باآواز لبیک پکارا۔ بہت سے سلف سے یہ منقول ہے، «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔
پھر فرمایا پیدل لوگ بھی آئیں گے اور سواریوں پر سوار بھی آئیں گے۔ اس سے بعض حضرات نے استدلال کیا ہے کہ جسے طاقت ہو اس کے لیے پیدل حج کرنا سواری پر حج کرنے سے افضل ہے اس لیے کہ پہلے پیدل والوں کا ذکر ہے پھر سواروں کا۔ تو ان کی طرف توجہ زیادہ ہوئی اور ان کی ہمت کی قدر دانی کی گئی۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں میری یہ تمنا رہ گئی کہ کاش کہ میں پیدل حج کرتا۔ اس لیے کہ فرمان الٰہی میں پیدل والوں کا ذکر ہے۔ لیکن اکثر بزرگوں کا قول ہے کہ سواری پر افضل ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے باوجود کمال قدرت وقوت کے پا پیادہ حج نہیں کیا تو سواری پر حج کرنا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری اقتداء ہے۔
پھر فرمایا دور دراز سے حج کے لیے آئیں گے خلیل اللہ علیہ السلام کی دعا بھی یہی تھی کہ آیت «فَاجْعَلْ أَفْئِدَةً مِّنَ النَّاسِ تَهْوِي إِلَيْهِمْ وَارْزُقْهُم مِّنَ الثَّمَرَاتِ لَعَلَّهُمْ يَشْكُرُونَ»[14-ابراھیم:37] ” لوگوں کے دلوں کو اے اللہ تو ان کی طرف متوجہ کر دے “۔ آج دیکھ لو وہ کون سا مسلمان ہے جس کا دل کعبے کی زیارت کا مشتاق نہ ہو؟ اور جس کے دل میں طواف کی تمنائیں تڑپ نہ رہی ہوں۔ (اللہ تعالیٰ ہمیں نصیب فرمائے)۔