اس آیت میں اللہ تبارک وتعالیٰ کفار کو دھمکا رہا ہے کہ کیا انہیں قیامت ہی کا انتظار ہے جس دن حق کے ساتھ فیصلے ہو جائیں گے اور ہر شخص اپنے کئے کو بھگت لے گا، جیسے اور جگہ ارشاد ہے آیت «كَلَّا إِذَا دُكَّتِ الْأَرْضُ دَكًّا دَكًّا وَجَاءَ رَبُّكَ وَالْمَلَكُ صَفًّا صَفًّا وَجِيءَ يَوْمَئِذٍ بِجَهَنَّمَ يَوْمَئِذٍ يَتَذَكَّرُ الْإِنسَانُ وَأَنَّىٰ لَهُ الذِّكْرَىٰ»[ 89-الفجر: 21- 23 ] یعنی جب زمین کے ریزے ریزے اور تیرا رب خود آ جائے گا اور فرشتوں کی صفیں کی صفیں بندھ جائیں گی اور جہنم بھی لا کر کھڑی کر دی جائے گی اس دن یہ لوگ عبرت ونصیحت حاصل کریں گے لیکن اس سے کیا فائدہ؟ اور جگہ فرمایا آیت «هَلْ يَنْظُرُوْنَ اِلَّآ اَنْ تَاْتِيَهُمُ الْمَلٰىِٕكَةُ اَوْ يَاْتِيَ رَبُّكَ اَوْ يَاْتِيَ بَعْضُ اٰيٰتِ رَبِّكَ»[ 6۔ الانعام: 158 ] یعنی کیا انہیں اس بات کا انتظار ہے کہ ان کے پاس فرشتے آئیں یا خود اللہ تعالیٰ آئے یا اس کی بعض نشانیاں آ جائیں اگر یہ ہو گیا تو پھر انہیں نہ ایمان نفع دے نہ نیک اعمال کا وقت رہے،
امام ابن جریر رحمہ اللہ نے یہاں پر ایک لمبی حدیث لکھی ہے جس میں صور وغیرہ کا مفصل بیان ہے جس کے راوی سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہیں۔ مسند وغیرہ میں یہ حدیث ہے اس میں ہے کہ جب لوگ گھبرا جائیں گے تو انبیاء علیہم السلام سے شفاعت طلب کریں گے آدم علیہ السلام سے لے کر ایک ایک پیغمبر علیہ السلام کے پاس جائیں گے اور وہاں سے صاف جواب پائیں گے یہاں تک کہ ہمارے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے لے کر ایک ایک پیغمبر کے پاس جائیں گے اور وہاں سے صاف جواب پائیں گے یہاں تک کہ ہمارے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچیں گے آپ صلی اللہ علیہ وسلم جواب دیں گے میں تیار ہوں میں ہی اس کا اہل ہوں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم جائیں گے اور عرش تلے سجدے میں گر پڑیں گے اور اللہ تعالیٰ سے سفارش کریں گے کہ وہ بندوں کا فیصلہ کرنے کے لیے تشریف لائے اللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت قبول فرمائے گا اور بادلوں کے سائبان میں آئے گا دنیا کا آسمان ٹوٹ جائے گا اور اس کے تمام فرشتے آ جائیں گے پھر دوسرا بھی پھٹ جائے گا اور اس کے فرشتے بھی آ جائیں گے اسی طرح ساتوں آسمان شق ہو جائیں گے اور ان کے فرشتے بھی آ جائیں گے، پھر اللہ کا عرش اترے گا اور بزرگ تر فرشتے نازل ہوں گے اور خود وہ جبار اللہ جل شانہ تشریف لائے گا فرشتے سب کے سب تسبیح خوانی میں مشغول ہوں گے ان کی تسبیح اس وقت یہ ہو گی۔ دعا «سُبْحَانَ ذِی الْمُلْکِ وَالْمَلَکُوْتِ، سُبْحَانَ ذِی الْعِزَّةِ وَالْجَبَرُوْتِ، سُبْحَانَ الْمَلِکِ الْحَيِ الَّذِی لَا يَمُوْتُ، سبحان الذی یمیت الخلائق وَلَا يَمُوْتُ، سُبُّوحٌ قُدُّوْسٌ رَبُّنَا وَرَبُّ الْمَلَائِکَةِ وَالرُّوْحِ، سُبُّوحٌ قُدُّوْسٌ، سبحان ربنا الاعلیٰ سبحان ذی السلطان والعطمۃ، سبحانہ سبحانہ ابدا ابدا»،۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:4042:ضعیف] حافظ ابوبکر بن مردویہ بھی اس آیت کی تفسیر میں بہت سی احادیث لائے ہیں جن میں غراب ہے «وَاللهُ اَعْلَمُ»،
ان میں سے ایک یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ اگلوں پچھلوں کو اس دن جمع کرے گا جس کا وقت مقرر ہے وہ سب کے سب کھڑے ہوں گے آنکھیں پتھرائی ہوئی اور اوپر کو لگی ہوئی ہوں گی ہر ایک کو فیصلہ کا انتظار ہو گا اللہ تعالیٰ ابر کے سائبان میں عرش سے کرسی پر نزول فرمائے گا، [حاکم:376/2:صحیح] ابن ابی حاتم میں ہے سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ جس وقت وہ اترے گا تو مخلوق اور اس کے درمیان ستر ہزار پردے ہوں گے نور کی چکا چوند کے اور پانی کے اور پانی سے وہ آوازیں آ رہی ہوں گی جس سے دل ہل جائیں، زھیر بن محمد فرماتے ہیں کہ وہ بادل کا سائبان یاقوت کا جڑا ہوا اور جوہر و زبرجد والا ہو گا، مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ بادل معمولی بادل نہیں بلکہ یہ وہ بادل ہے جو بنی اسرائیل کے سروں پر وادی تیہ میں تھا،
ابوالعالیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں فرشتے بھی بادل کے سائے میں آئیں گے اور اللہ تعالیٰ جس میں چاہے آئے گا، [تفسیر ابن جریر الطبری:264/4] چنانچہ بعض قرأتوں میں یوں بھی ہے آیت «ھَلْ يَنْظُرُوْنَ اِلَّآ اَنْ يَّاْتِيَهُمُ اللّٰهُ فِيْ ظُلَلٍ مِّنَ الْغَمَامِ وَالْمَلٰىِٕكَةُ وَقُضِيَ الْاَمْرُ وَاِلَى اللّٰهِ تُرْجَعُ الْاُمُوْرُ»[ 2۔ البقرہ: 210 ] جیسے اور جگہ ہے آیت «وَيَوْمَ تَشَقَّقُ السَّمَاءُ بِالْغَمَامِ وَنُزِّلَ الْمَلٰىِٕكَةُ تَنْزِيْلًا»[ 25۔ الفرقان: 25 ] ۔ یعنی اس دن آسمان بادل سمیت پھٹے گا اور فرشتے اتر آئیں گے۔