تفسير ابن كثير



استغفار موجب نجات ہے ٭٭

پھر فرماتا ہے کہ ” ہم نے ان کی دعا قبول کرلی اور غم سے نجات دے دی ان اندھیروں سے نکال دیا۔ اسی طرح ہم ایمان داروں کو نجات دیا کرتے ہیں، وہ مصیبتوں میں گھر کر ہمیں پکارتے ہیں اور ہم ان کی دستگیری فرما کرتمام مشکلیں آسان کر دیتے ہیں “۔ خصوصاً جو لوگ اس دعائے یونس ہی کو پڑھیں جسکی تاکید سید الانبیاء رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں۔

مسند احمد ترمذی وغیرہ میں ہے سیدنا سعد بن ابو وقاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں مسجد میں گیا سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ وہاں تھے۔ میں نے سلام کیا آپ رضی اللہ عنہ نے مجھے بغور دیکھا اور میرے سلام کا جواب نہ دیا میں نے امیر المؤمنین عمربن خطاب رضی اللہ عنہ سے آکر شکایت کی آپ رضی اللہ عنہ نے عثمان رضی اللہ عنہ کو بلوایا ان سے کہا کہ آپ رضی اللہ عنہ نے ایک مسلمان بھائی کے سلام کا جواب کیوں نہ دیا؟ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا نہ یہ آئے، نہ انہوں نے سلام کیا، نہ یہ کہ میں نے انہیں جواب نہ دیا ہو۔‏‏‏‏ اس پر میں قسم کھائی تو، آپ رضی اللہ عنہ نے بھی میرے مقابلے میں قسم کھالی۔ پھر کچھ خیال کر کے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے توبہ استغفار کیا اور فرمایا ٹھیک ہے۔ آپ نکلے تھے لیکن میں اس وقت اپنے دل سے وہ بات کہہ رہا تھا جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سے سنی تھی۔ واللہ مجھے جب وہ یاد آتی ہے میری آنکھوں پر ہی نہیں بلکہ میرے دل پر بھی پردہ پڑ جاتا ہے ۔

سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے فرمایا میں آپ رضی اللہ عنہ کو اس کی خبردیتا ہوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے سامنے اول دعا کا ذکر کیا ہی تھا جو ایک اعرابی آگیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی باتوں میں مشغول کرلیا۔ بہ وقت گزرتا گیا اب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے اٹھے اور مکان کی طرف تشریف لے چلے میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے ہولیا، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھر کے قریب پہنچ گئے مجھے ڈر لگا کہ کہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اندر نہ چلے جائیں اور میں رہ جاؤں تو میں نے زور زور سے پاؤں مارمار کر چلنا شروع کیا میری جوتیوں کی آہٹ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میری طرف دیکھا اور فرمایا: کون ابواسحاق؟ میں نے کہا جی ہاں یا رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں ہی ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں ہاں وہ دعا ذوالنون علیہ السلام کی تھی جو انہوں نے مچھلی کے پیٹ میں کی تھی یعنی «لَّآ اِلٰهَ اِلَّآ اَنْتَ سُبْحٰــنَكَ اِنِّىْ كُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِيْنَ» [21-الأنبياء:87] ‏‏‏‏ سنو جو بھی مسلمان جس کسی معاملے میں جب کبھی اپنے رب سے یہ دعا کرے اللہ تعالیٰ اسے ضرور قبول فرماتا ہے ۔

ابن ابی حاتم میں ہے جو بھی یونس علیہ السلام اس دعا کے ساتھ دعا کرے اس کی دعا ضرور قبول کی جائے گی ۔

ابوسعید رحمہ اللہ فرماتے ہیں اسی آیت میں اس کے بعد ہی فرمان ہے ہم اسی طرح مؤمنوں کو نجات دیتے ہیں۔‏‏‏‏

ابن جریر میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اللہ کا وہ نام جس سے وہ پکارا جائے تو قبول فرمالے اور جو مانگا جائے وہ عطا فرمائے وہ یونس بن متع علیہ السلام کی دعا میں ہے ۔

حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہ یونس علیہ السلام کے لیے ہی خاص تھی یا تمام مسلمانوں کے لیے عام ہے؟ فرمایا: ان کے لیے خاص اور تمام مسلمانوں کے لیے عام جو بھی یہ دعا کرے، کیا تو نے قرآن میں نہیں پڑھا کہ ” ہم نے اس کی دعا قبول فرمائی اسے غم سے چھڑایا اور اسی طرح ہم مومنوں کو چھڑاتے ہیں “۔ پس جو بھی اس دعا کو کرے اس سے اللہ کا قبولیت کا وعدہ ہو چکا ہے ۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:24779:ضعیف] ‏‏‏‏

ابن ابی حاتم میں ہے کثیر بن سعید فرماتے ہیں میں نے امام حسن بصری رحمتہ اللہ علیہ سے پوچھا کہ ابوسعید! اللہ کا وہ اسم اعظم کہ جب اس کے ساتھ اس سے دعا کی جائے اللہ تعالیٰ قبول فرمالے اور جب اس کے ساتھ اس سے سوال کیا جائے تو وہ عطا فرمائے کیا ہے؟ آپ رحمہ اللہ نے جواب دیا کہ برادر زادے کیا تم نے قرآن کریم میں اللہ کا یہ فرمان نہیں پڑھا؟ پھر آپ رحمہ اللہ نے یہی دو آیتیں «وَذَا النُّونِ إِذ ذَّهَبَ مُغَاضِبًا فَظَنَّ أَن لَّن نَّقْدِرَ عَلَيْهِ فَنَادَىٰ فِي الظُّلُمَاتِ أَن لَّا إِلَٰهَ إِلَّا أَنتَ سُبْحَانَكَ إِنِّي كُنتُ مِنَ الظَّالِمِينَ فَاسْتَجَبْنَا لَهُ وَنَجَّيْنَاهُ مِنَ الْغَمِّ وَكَذَٰلِكَ نُنجِي الْمُؤْمِنِينَ» تلاوت فرمائیں اور فرمایا بھتیجے یہی اللہ کا وہ اسم اعظم ہے کہ جب اس کے ساتھ دعا کی جائے وہ قبول فرماتا ہے اور جب اس کے ساتھ اس سے مانگا جائے وہ عطا فرماتا ہے۔‏‏‏‏



https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.