حضرت ابوب علیہ السلام کی تکلیفوں کا بیان ہو رہا ہے جو مالی جسمانی اور اولاد پر مشتمل تھیں ان کے پاس بہت سے قسم قسم کے جانور تھے کھیتیاں باغات وغیرہ تھے اولاد بیویاں لونڈیاں غلام جائیداد اور مال ومتاع سبھی کچھ اللہ کا دیا موجود تھا۔ اب جو رب کی طرف سے ان پر آزمائش آئی تو ایک سرے سے سب کچھ فنا ہوتا گیا یہاں تک کہ جسم میں جذام پھوٹ پڑا۔ دل و زبان کے سوا سارے جسم کا کوئی حصہ اس مرض سے محفوظ نہ رہا۔ یہاں تک کہ آس پاس والے کراہت کرنے لگے۔ شہر کے ایک ویران کونے میں آپ علیہ السلام کو سکونت اختیار کرنی پڑی۔ سوائے آپ علیہ السلام کی ایک بیوی صاحبہ رضی اللہ عنہا کے اور کوئی آپ علیہ السلام کے پاس نہ رہا، اس مصیبت کے وقت سب نے کنارہ کر لیا۔ یہی ایک تھیں جو ان کی خدمت کرتی تھیں ساتھ ہی محنت مزدوری کر کے پیٹ پالنے کو بھی لایا کرتی تھیں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سچ فرمایا کہ سب سے زیادہ سخت امتحان نبیوں کا ہوتا ہے، پھر صالح لوگوں کا پھر ان سے نیچے کے درجے والوں کا پھر ان سے کم درجے والوں کا ۔ [سنن ترمذي:2398،قال الشيخ الألباني:صحیح]
اور روایت میں ہے کہ ہر شخص کا امتحان اس کے دین کے انداز سے ہوتا ہے اگر وہ دین میں مضبوط ہے امتحان بھی سخت تر ہوتا ہے ۔ ؎ [سنن ترمذي:2398،قال الشيخ الألباني:صحیح] ایوب علیہ السلام بڑے ہی صابر تھے یہاں تک کہ صبر ایوب زبان زد عام ہے۔
یزید بن میسرہ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں ”جب آپ علیہ السلام کی آزمائش شروع ہوئی اہل و عیال مرگئے مال فنا ہوگیا کوئی چیز ہاتھ تلے نہ رہی۔ آپ علیہ السلام اللہ کے ذکر میں اور بڑھ گئے کہنے لگے ”اے تمام پالنے والوں کے پالنے والے تو نے مجھ پر بڑے احسان کئے مال دیا اولاد دی اس وقت میرا دل بہت ہی مشغول تھا اب تو نے سب کچھ لے کر میرے دل کو ان فکروں سے پاک کر دیا اب میرے دل میں اور تجھ میں کوئی حائل نہ رہا اگر میرا دشمن ابلیس تیری اس مہربانی کو جان لیتا تو وہ مجھ پر بہت ہی حسد کرتا۔“ ابلیس لعین اس قول سے اور اس وقت کی اس حمد سے جل بھن کر رہ گیا۔ [الدر المنشور للسیوطی:589/4:ضعیف]
آپ علیہ السلام کی دعاؤں میں یہ بھی دعا تھی ”اے اللہ تو نے جب مجھے توانگر اور اولاد اور اہل و عیال والا بنا رکھا تھا تو خوب جانتا ہے کہ اس وقت میں نے نہ کبھی غرور و تکبر کیا نہ کبھی کسی پر ظلم ستم کیا۔ میرے پروردگار تجھ پر روشن ہے کہ میرا نرم و گرم بستر تیار ہوتا اور میں راتوں کو تیری عبادتوں میں گزارتا اور اپنے نفس کو اس طرح ڈانٹ دیتا کہ تو اس لیے پیدا نہیں کیا گیا تیری رضا مندی کی طلب میں میں اپنی راحت و آرام کو ترک کر دیا کرتا۔“[ ابن ابی حاتم ]
اس آیت کی تفسیر میں ابن جریر اور ابن ابی حاتم میں ایک بہت لمبا قصہ ہے جسے بہت سے پچھلے مفسیرین نے بھی ذکر کیا ہے۔ لیکن اس میں غرابت ہے اور اس کے طول کی وجہ سے ہم نے اسے چھوڑ دیا ہے۔ مدتوں تک آپ علیہ السلام ان بلاؤں میں مبتلا رہے۔
حضرت حسن اور قتادہ رحمہ اللہ علیہم فرماتے ہیں ”سات سال اور کئی ماہ آپ علیہ السلام بیماری میں مبتلا رہے۔ بنو اسرائیل کے کوڑے پھینکنے کی جگہ آپ علیہ السلام کو ڈال رکھا تھا۔ بدن میں کیڑے پڑ گئے تھے، پھر اللہ نے آپ علیہ السلام پر رحم و کرم کیا تمام بلاؤں سے نجات دی اجر دیا اور تعریفیں کیں۔“
وہب بن منبہ رحمہ اللہ کا بیان ہے کہ ”پورے تین سال آپ علیہ السلام اس تکلیف میں رہے۔ سارا گوشت جھڑ گیا تھا۔ صرف ہڈیاں اور چمڑا رہ گیا۔ آپ علیہ السلام دکھ میں پڑے رہتے تھے صرف ایک بیوی صاحبہ تھیں جو آپ علیہ السلام کے پاس تھیں۔ جب زیادہ زمانہ گزر گیا تو ایک روز عرض کرنے لگیں کہ ”اے نبی اللہ علیہ السلام آپ علیہ السلام اللہ سے دعا کیوں نہیں کرتے کہ وہ اس مصیبت کو ہم پر سے ٹال دے۔“ آپ علیہ السلام فرمانے لگے ”سنو ستر برس تک اللہ تعالیٰ نے مجھے صحت وعافیت میں رکھا تو اگر ستر سال تک میں اس حالت میں رہوں اور صبر کروں تو یہ بھی بہت کم ہے۔“ اس پر بیوی صاحبہ کانپ اٹھیں آپ شہر میں جاتیں، لوگوں کا کام کاج کرتیں اور جو ملتا وہ لے آتیں اور آپ علیہ السلام کو کھلاتیں پلاتیں۔
آپ علیہ السلام کے دو دوست اور دلی خیرخواہ دوست تھے انہیں فلسطین میں جاکر شیطان نے خبر دی کہ تمہارا دوست سخت مصیبت میں مبتلا ہے تم جاؤ ان کی خبرگیری کرو اور اپنے ہاں کی کچھ شراب اپنے ساتھ لے جاؤ وہ پلادینا اس سے انہیں شفاء ہو جائے گی۔ چنانچہ یہ دونوں آئے ایوب علیہ السلام کی حالت دیکھتے ہی ان کے آنسو نکل آئے بلبلا کر رونے لگے۔
آپ علیہ السلام نے پوچھا تم کون ہو؟ انہوں نے یاد دلایا تو آپ علیہ السلام خوش ہوئے انہیں مرحبا کہا وہ کہنے لگے ”اے جناب آپ شاید کچھ چھپاتے ہوں گے اور ظاہر اس کے خلاف کرتے ہوں گے؟“ آپ علیہ السلام نے نگاہیں آسمان کی طرف اٹھا کر فرمایا ”اللہ خوب جانتا ہے کہ میں کیا چھپاتا تھا اور کیا ظاہر کرتا تھا میرے رب نے مجھے اس میں مبتلا کیا ہے تاکہ وہ دیکھے کہ میں صبر کرتا ہوں یا بے صبری؟“
وہ کہنے لگے اچھا ہم آپ کے واسطے دوا لائے ہیں آپ اسے پی لیجئے شفاء ہو جائے گی یہ شراب ہے۔ ہم اپنے ہاں سے لائے ہیں۔ یہ سنتے ہی آپ علیہ السلام سخت غضبناک ہوئے اور فرمانے لگے ”تمہیں شیطان خبیث لایا ہے تم سے کلام کرنا تمہارا کھانا پینا مجھ پر حرام ہے۔“ یہ دونوں آپ علیہ السلام کے پاس سے چلے گئے۔
ایک مرتبہ کا ذکر ہے کہ آپ علیہ السلام کی بیوی صاحبہ نے ایک گھر والوں کی روٹیاں پکائیں ان کا ایک بچہ سویا ہوا تھا تو انہوں نے اس بچے کے حصے کی ٹکیا انہیں دے دی یہ لے کر ایوب علیہ السلام کے پاس آئیں۔ آپ علیہ السلام نے کہا ”یہ آج کہاں سے لائیں؟“ انہوں نے ساراواقعہ بیان کر دیا۔ آپ علیہ السلام نے فرمایا ”ابھی ابھی واپس جاؤ ممکن ہے بچہ جاگ گیا ہو اور اسی ٹکیا کی ضد کرتا ہو اور رو رو کر سارے گھر والوں کو پریشان کرتا ہو۔“
آپ روٹی واپس لے کرچلیں ان کی ڈیوڑھی میں بکری بندھی ہوئی تھی اس نے زور سے آپ کو ٹکر ماری آپ کی زبان سے نکل گیا دیکھو ایوب کیسے غلط خیال والے ہیں۔ پھر اوپر گئیں تو دیکھا واقعی بچہ جاگا ہوا ہے اور ٹکیا کے لیے مچل رہا ہے اور گھر بھر کا ناک میں دم کر رکھا ہے یہ دیکھ کر بے ساختہ زبان سے نکلا کہ اللہ ایوب پر رحم کرے، اچھے موقعہ پر پہنچی۔
ٹکیا دے دی اور واپس لوٹیں راستے میں شیطان بہ صورت طبیب ملا اور کہنے لگا کہ تیرے خاوند سخت تکلیف میں ہیں مرض پر مدتیں گزر گئیں تم انہیں سمجھاؤ فلاں قبیلے کے بت کے نام پر ایک مکھی مار دیں شفاء ہو جائے گی پھر توبہ کر لیں۔ جب آپ ایوب علیہ السلام کے پاس پہنچیں تو ان سے یہ کہا آپ علیہ السلام نے فرمایا ”شیطان خبیث کاجادو تجھ پر چل گیا۔ میں تندرست ہو گیا تو تجھے سو کوڑے لگاؤں گا۔“
ایک دن آپ حسب معمول تلاش معاش میں نکلیں گھر گھر پھر آئیں کہیں کام نہ لگا مایوس ہوگئیں شام کو پلٹنے وقت ایوب علیہ السلام کی بھوک کا خیال آیا تو آپ نے اپنے بالوں کی ایک لٹ کاٹ کر ایک امیر لڑکی کے ہاتھ فروخت کر دی اس نے آپ کو بہت کچھ کھانے پینے کا اسباب دیا۔ جسے لے کر آپ آئیں، ایوب علیہ السلام نے پوچھا ”یہ آج اتنا سارا اور اتنا اچھا کھانا کیسے مل گیا؟“ فرمایا میں نے ایک امیر گھر کا کام کر دیا تھا۔ آپ علیہ السلام نے کھا لیا دوسرے روز بھی اتفاق سے ایسا ہی ہوا اور آپ نے اپنے بالوں کی دوسری لٹ کاٹ کر فروخت کر دی اور کھانا لے آئیں آج بھی یہی کھانا دیکھ کر آپ علیہ السلام نے فرمایا ”واللہ میں ہرگز نہ کھاؤں گا جب تک تو مجھے یہ نہ بتا دے کہ کیسے لائی؟“ اب آپ نے اپنا دوپٹہ سر سے اتار دیا دیکھا کہ سرکے بال سب کٹ چکے ہیں اس وقت سخت گھبراہٹ اور بے چینی ہوئی اور اللہ سے دعا کی کہ ”مجھے ضرر پہنچا اور تو سب سے زیادہ رحیم ہے۔“
حضرت نوف بکالی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ”جو شیطان ایوب علیہ السلام کے پیچھے پڑا تھا اس کا نام مسبوط تھا۔ ایوب علیہ السلام کی بیوی صاحبہ عموماً آپ علیہ السلام سے عرض کیا کرتی تھیں کہ اللہ سے دعا کرو۔ لیکن آپ علیہ السلام نہ کرتے تھے یہاں تک کہ ایک دن بنو اسرائیل کے کچھ لوگ آپ علیہ السلام کے پاس سے نکلے اور آپ علیہ السلام کو دیکھ کر کہنے لگے اس شخص کو یہ تکلیف ضرور کسی نہ کسی گناہ کی وجہ سے ہے اس وقت بےساختہ آپ علیہ السلام کی زبان سے یہ دعا نکل گئی۔“
عبداللہ بن عبید بن عمیر رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ”ایوب علیہ السلام کہ دو بھائی تھے ایک دن وہ ملنے کے لیے آئے۔ لیکن جسم کی بدبو کی وجہ سے قریب نہ آسکے دور ہی سے کھڑے ہو کر ایک دوسرے سے کہنے لگے کہ اگر اس شخص میں بھلائی ہوتی تو اللہ تعالیٰ اسے اس مصیبت میں نہ ڈالتا اس بات نے ایوب علیہ السلام کو وہ صدمہ پہنچایا جو آج تک آپ علیہ السلام کو کسی چیز سے نہ ہوا تھا اس وقت کہنے لگے ”اللہ کوئی رات مجھ پر ایسی نہیں گزری کہ کوئی بھوکا شخص میرے علم میں ہو اور میں نے پیٹ بھرلیا ہو پروردگار اگر میں اپنی اس بات میں تیرے نزدیک سچا ہوں تو میری تصدیق فرما۔“ اُسی وقت آسمان سے آپ علیہ السلام کی تصدیق کی گئی تھی اور وہ دونوں سن رہے تھے۔
پھر فرمایا کہ ”پروردگار کبھی ایسا نہیں ہوا کہ میرے پاس ایک سے زائد کپڑے ہوں اور میں نے کسی ننگے کو نہ دیے ہوں اگر میں اس میں سچا ہوں تو میری تصدیق آسمان سے کر۔“ اس پر بھی آپ کی تصدیق ان کے سنتے ہوئے کی گئی۔
پھر یہ دعا کرتے ہوئے سجدے میں گر پڑے کہ ”اے اللہ میں تو اب سجدے سے سر نہ اٹھاؤں گا جب تک کہ تو مجھ سے ان تمام مصیبتوں کو دور نہ کر دے جو مجھ پر نازل ہوئی ہیں۔“ چنانچہ یہ دعاقبول ہوئی۔ اور اس سے پہلے کہ آپ علیہ السلام سر اٹھائیں تمام تکلیفیں اور بیماریاں دور ہو گئیں جو آپ علیہ السلام پر اتری تھیں۔
ابن ابی حاتم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ ایوب علیہ السلام اٹھارہ برس تک بلاؤں میں گھرے رہے پھر ان کے دو دوستوں کے آنے اور بدگمانی کرنے کا ذکر ہے جس کے جواب میں آپ نے فرمایا کہ میری تو یہ حالت تھی کہ راستہ چلتے دو شخصوں کو جھگڑتا دیکھتا اور ان میں سے کسی کو قسم کھاتے سن لیتا تو گھر آکر اس کی طرف سے کفارہ ادا کر دیتا کہ ایسا نہ ہو کہ اس نے نام ناحق لیا ہو۔ آپ علیہ السلام اپنی اس بیماری میں اس قدر نڈھال ہو گئے تھے کہ آپ کی بیوی صاحبہ ہاتھ تھام کر پاخانہ پیشاب کے لیے لے جاتی تھیں۔ ایک مرتبہ آپ علیہ السلام کو حاجت تھی آپ نے آواز دی لیکن انہیں آنے میں دیر لگی آپ کو سخت تکلیف ہوئی اسی وقت آسمان سے ندا آئی کہ ” اے ایوب اپنی ایڑی زمین پر مارو اسی پانی کو پی بھی لو اور اسی سے نہا بھی لو “ اس حدیث کا مرفوع ہونا بالکل غریب ہے۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:168/23:]
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ”اسی وقت اللہ تعالیٰ نے آپ علیہ السلام کے لیے جنت کا حلہ نازل فرما دیا جسے پہن کر آپ علیہ السلام یکسو ہو کر بیٹھ گئے۔ جب آپ کی بیوی آئیں اور آپ علیہ السلام کو نہ پہچان سکیں تو، آپ علیہ السلام سے پوچھنے لگیں اے اللہ کے بندے یہاں ایک بیمار بے کس، بے بس تھے تمہیں معلوم ہے کہ وہ کیا ہوئے؟ کہیں انہیں بھیڑئیے نہ کھا گئے ہوں یا کتے نہ لے گئے ہوں؟
تب آپ علیہ السلام نے فرمایا ”نہیں نہیں وہ بیمار ایوب (علیہ السلام) میں ہی ہوں۔“ بیوی صاحبہ کہنے لگی اے شخص تو مجھ دکھیا عورت سے ہنسی کر رہا ہے اور مجھے بنا رہا ہے؟ آپ علیہ السلام نے فرمایا ”نہیں نہیں مجھے اللہ نے شفا دے دی اور یہ رنگ روپ بھی۔“
آپ علیہ السلام کا مال آپ کو واپس دیا گیا، آپ علیہ السلام کی اولاد وہی آپ علیہ السلام کو واپس ملی اور ان کے ساتھ ہی ویسی ہی اور بھی وحی میں یہ خوشخبری بھی سنا دی گئی تھی اور فرمایا گیا تھا کہ ” قربانی کرو اور استغفار کرو، تیرے اپنوں نے تیرے بارے میں میری نافرمانی کرلی تھی “۔
اور روایت میں ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے ایوب علیہ السلام کو عافیت عطا فرمائی آسمان سے سونے کی ٹڈیاں ان پر برسائیں جنہیں لے کر آپ علیہ السلام نے اپنے کپڑے میں جمع کرنی شروع کر دیں تو آواز دی گئی کہ اے ایوب کیا تو اب تک آسودہ نہیں ہوا؟ آپ علیہ السلام نے جواب دیا کہ ”اے میرے پروردگار تیری رحمت سے آسودہ کون ہوسکتا ہے؟“[مسند احمد:314/2:]
پھر فرماتا ہے ” ہم نے اسے اس کے اہل عطا فرمائے “۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ تو فرماتے ہیں ”وہی لوگ واپس کئے گئے۔“[تفسیر ابن جریر الطبری:506/18:] آپ علیہ السلام کی بیوی کا نام رحمت تھا۔ یہ قول اگر آیت سے سمجھا گیا ہے تو یہ بھی دور از کار امر ہے اور اگر اہل کتاب سے لیا گیا ہے تو وہ تصدیق تکذیب کے قابل ہے چیز نہیں۔ ابن عساکر نے ان کا نام اپنی تاریخ میں“ لیا“ بتایا ہے۔ یہ منشا بن یوسف بن اسحاق بن ابراہیم علیہ السلام کی بیٹی ہیں۔
ایک قول یہ بھی ہے کہ ”لیا“ یعقوب علیہ السلام کی بیٹی ایوب علیہ السلام کی بیوی ہیں جو شفیعہ کی زمین میں آپ علیہ السلام کے ساتھ تھیں۔ مروی ہے کہ آپ علیہ السلام سے فرمایا گیا کہ ” تیری اہل سب جنت میں ہیں تم کہو تو میں ان سب کو یہاں دنیا میں لادوں اور کہے تو وہیں رہنے دوں اور دنیا میں ان کا عوض دوں “ آپ علیہ السلام نے دوسری بات پسند فرمائی۔
پس آخرت کا اجر اور دنیا کا بدلہ دونوں آپ علیہ السلام کو ملا۔ ” یہ سب کچھ ہماری رحمت کا ظہور تھا۔ اور ہمارے سچے عابدوں کے لیے نصیحت وعبرت تھی “، آپ علیہ السلام اہل بلا کے پیشوا تھے۔ یہ سب اس لیے ہوا کہ مصیبتوں میں پھنسے ہوئے لوگ اپنے لیے آپ کی ذات میں عبرت دیکھیں، بے صبری سے ناشکری نہ کرنے لگیں اور لوگ انہیں اللہ کے برے بندے نہ سمجھیں۔
ایوب علیہ السلام صبر کا پہاڑ ثابت قدمی کا نمونہ تھے اللہ کے لکھے پر، اس کے امتحان پر انسان کو صبر و برداشت کرنی چاہیئے نہ جانیں قدرت درپردہ اپنی کیا کیا حکمتیں دکھا رہی ہے۔