تفسير ابن كثير



مومن کون؟ ٭٭

منافقوں کی مذموم خصلتیں بیان فرما کر اب مومنوں کی تعریفیں ہو رہی ہیں، یہ آیت سیدنا صہیب بن سنان رومی رضی اللہ عنہ کے حق میں نازل ہوئی ہے یہ مکہ میں مسلمان ہوئے تھے جب مدینہ کی طرف ہجرت کرنی چاہی تو کافروں نے ان سے کہا کہ ہم تمہیں مال لے کر نہیں جانے دیں گے اگر تم مال چھوڑ کر جانا چاہتے ہو تو تمہیں اختیار ہے، آپ رضی اللہ عنہ نے سب مال سے علیحدگی کر لی اور کفار نے اس پر قبضہ کر لیا اور آپ رضی اللہ عنہ نے ہجرت کی جس پر یہ آیت اتری۔

سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ اور صحابہ کرام کی ایک بڑی جماعت آپ رضی اللہ عنہ کے استقبال کے لیے حرہ تک آئی اور مبارکبادیاں دیں کہ آپ رضی اللہ عنہ نے بڑا اچھا بیو پار کیا بڑے نفع کی تجارت کی۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:248/4] ‏‏‏‏ آپ رضی اللہ عنہ یہ سن کر فرمانے لگے اللہ تعالیٰ آپ کی تجارتوں کو بھی نقصان والی نہ کرے آخر بتاؤ تو یہ مبارکبادیاں کیا ہیں۔ ان بزرگوں نے فرمایا آپ رضی اللہ عنہ کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ آیت نازل ہوئی ہے، جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ خوشخبری سنائی۔ قریش نے ان سے کہا تھا کہ جب آپ مکہ میں آئے آپ کے پاس مال نہ تھا یہ سب مال یہیں کمایا اب اس مال کو لے کر ہم جانے نہ دیں گے چنانچہ آپ رضی اللہ عنہ نے مال کو چھوڑا اور دین لے کر خدمت رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضر ہو گئے،

ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ جب آپ رضی اللہ عنہ ہجرت کے ارادے سے نکلے اور کفار مکہ کو علم ہوا تو سب نے آن کر گھیر لیا آپ رضی اللہ عنہ نے اپنے ترکش سے تیر نکال لیے اور فرمایا اے مکہ والو تم خوب جانتے ہو کہ میں کیسا تیر انداز ہوں میرا ایک نشانہ بھی خطا نہیں جاتا جب تک یہ تیر ختم نہ ہوں گے میں تم کو چھیدتا رہوں گا اس کے بعد تلوار سے تم سے لڑوں گا اور اس میں بھی تم میں سے کسی سے کم نہیں ہوں جب تلوار کے بھی ٹکڑے ہو جائیں گے پھر تم میرے پاس آسکتے ہو پھر جو چاہو کر لو اگر یہ تمہیں منظور ہے تو بسم اللہ ورنہ سنو میں تمہیں اپنا کل مال دئیے دیتا ہوں سب لے لو اور مجھے جانے دو وہ مال لینے پر رضامند ہو گئے اور اس طرح آپ رضی اللہ عنہ نے ہجرت کی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچنے سے پہلے ہی وہاں بذریعہ وحی یہ آیت نازل ہو چکی تھی آپ رضی اللہ عنہ کو دیکھ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مبارک باد دی۔ [حاکم:400/3صحیح] ‏‏‏‏

اکثر مفسرین کا یہ قول بھی ہے کہ یہ آیت عام ہے ہر مجاہد فی سبیل اللہ کی شان ہے جیسے اور جگہ ہے آیت «اِنَّ اللّٰهَ اشْتَرٰي مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ اَنْفُسَھُمْ وَاَمْوَالَھُمْ بِاَنَّ لَھُمُ الْجَنَّةَ» [ 9۔ التوبہ: 111 ] ‏‏‏‏ یعنی اللہ تعالیٰ نے مومنوں کی جانیں اور مال خرید لیے ہیں اور ان کے بدلے جنت دے دی ہے یہ اللہ کی راہ میں جہاد کرتے ہیں مارتے بھی ہیں اور شہید بھی ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ کا یہ سچا عہد توراہ انجیل اور قرآن میں موجود ہے اللہ تعالیٰ سے زیادہ سچے عہد والا اور کون ہو گا تم اے ایماندارو اس خرید فروخت اور ادلے بدلے سے خوش ہو جاؤ یہی بڑی کامیابی ہے، ہشام بن عامر نے جبکہ کفار کی دونوں صفوں میں گھس کر ان پر یکہ وتنہا بےپناہ حملہ کر دیا تو بعض لوگوں نے اسے خلاف شرع سمجھا۔ لیکن سیدنا عمر اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہما وغیرہ نے ان کی تردید کی اور اسی آیت «وَمِنَ النَّاسِ مَن يَشْرِي نَفْسَهُ ابْتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللَّهِ ۗ وَاللَّهُ رَءُوفٌ بِالْعِبَادِ» [ البقرہ: 207 ] ‏‏‏‏ کی تلاوت کر کے سنا دی۔



https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.