نوح نبی علیہ الصلوۃ والسلام کو ان کی قوم نے ستایا۔ تکلیفیں دیں تو آپ علیہ السلام نے اللہ کو پکارا کہ «فَدَعَا رَبَّهُ أَنِّي مَغْلُوبٌ فَانتَصِرْ»[54-القمر:10] ” باری تعالیٰ میں عاجز آ گیا ہوں تو میری مدد فرما “۔ «وَقَالَ نُوحٌ رَّبِّ لَا تَذَرْ عَلَى الْأَرْضِ مِنَ الْكَافِرِينَ دَيَّارًا إِنَّكَ إِن تَذَرْهُمْ يُضِلُّوا عِبَادَكَ وَلَا يَلِدُوا إِلَّا فَاجِرًا كَفَّارًا»[71-نوح:26-27] ” زمین پر ان کافروں میں سے کسی ایک کو بھی باقی نہ رکھ ورنہ یہ تیرے بندوں کو بہکائیں گے۔ اور ان کی اولادیں بھی ایسی ہی فاجر و کافر ہوں گی “۔
اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کی دعا قبول فرمائی «وَأَهْلَكَ إِلَّا مَن سَبَقَ عَلَيْهِ الْقَوْلُ وَمَنْ آمَنَ ۚ وَمَا آمَنَ مَعَهُ إِلَّا قَلِيلٌ»[11-ھود:40] اور آپ علیہ السلام کو اور مومنوں کو نجات دی اور آپ علیہ السلام کے اہل کو بھی سوائے ان کے جن کے نام برباد ہونے والوں میں آگئے تھے۔ آپ علیہ السلام پر ایمان لانے والوں کی بہت ہی کم مقدار تھی۔ قوم کی سختی، ایذاء دہی اور تکلیف سے رب عالم نے اپنے نبی علیہ السلام کو بچا لیا۔ ساڑھے نو سو سال تک آپ علیہ السلام ان میں رہے اور انہیں دین اسلام کی طرف بلاتے رہے مگر سوائے چند لوگوں کے اور سب اپنے شرک و کفر سے باز نہ آئے، بلکہ آپ علیہ السلام کو سخت ایذائیں دیں اور ایک دوسرے کو اذیت دینے کے لیے بھڑکاتے رہے۔
” ہم نے ان کی مدد فرمائی اور عزت و آبرو کے ساتھ کفار کی ایذاء رسانیوں سے چھٹکارا دیا اور ان برے لوگوں کوٹھکانے لگا دیا “، اور نوح علیہ السلام کی دعا کے مطابق روئے زمین پر ایک بھی کافر نہ بچا۔ سب ڈبو دئے گئے۔