سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ”ابراہیم علیہ السلام کے والد نے سب سے اچھا کلمہ جو کہا ہے وہ یہ ہے کہ جب ابراہیم علیہ السلام آگ سے زندہ صحیح سالم نکلے، اس وقت آپ علیہ السلام کو اپنی پیشانی سے پسینہ پونچھتے ہوئے دیکھ کر آپ علیہ السلام کے والد نے کہا، ابراہیم (علیہ السلام)”تیرا رب بہت ہی بزرگ اور بڑا ہے۔“ قتادہ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں، اس دن جو جانور نکلا وہ آپ علیہ السلام کی آگ کو بجھانے کی کوشش کرتا رہا سوائے گرگٹ کے۔“[تفسیر ابن جریر الطبری:467/18:]
زہری رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں، ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے گرگٹ کے مار ڈالنے کا حکم فرمایا ہے اور اسے فاسق کہا ہے۔“
ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں ایک نیزہ دیکھ کر ایک عورت نے سوال کیا کہ یہ کیوں رکھ چھوڑا ہے؟ آپ رضی اللہ عنہا نے فرمایا ”گرگٹوں کو مار ڈالنے کے لیے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ جس وقت ابراہیم علیہ السلام آگ میں ڈالے گئے اس وقت تمام جانور اس آگ کو بجھا رہے تھے سوائے گرگٹ کے، یہ اور پھونک رہا تھا ، پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے مار ڈالنے کا حکم فرمایا ہے ۔ [سنن ابن ماجه:3231،قال الشيخ الألباني:صحیح]
پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ” ان کا مکر ہم نے ان پر الٹ دیا “۔ کافروں نے اللہ کے نبی علیہ السلام کو نیچا کرنا چاہا اللہ نے انہیں نیچا دکھایا۔
. عطیہ عوفی رحمہ اللہ کا بیان ہے کہ ”ابراہیم علیہ السلام کا آگ میں جلائے جانے کا تماشا دیکھنے کے لیے ان کافروں کا بادشاہ بھی آیا تھا، ادھر خلیل اللہ علیہ السلام کو آگ میں ڈالا جاتا ہے ادھر آگ میں سے ایک چنگاری اڑتی ہے اور اس کافر بادشاہ کے انگوٹھے پر آ پڑتی ہے اور وہیں کھڑے کھڑے سب کے سامنے اس طرح اسے جلا دیتی ہے جیسے روئی جل جائے۔“