غرض یہ کہ ان منافقوں کا قصد زمین میں فساد پھیلانا کھیتی باڑی، زمین کی پیداوار اور حیوانوں کی نسل کو برباد کرنا ہی ہوتا ہے۔ یہ بھی معنی مجاہد رحمہ اللہ سے مروی ہیں کہ ان لوگوں کے نفاق اور ان کی بدکرداریوں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ بارش کو روک لیتا ہے جس سے کھیتیوں کو اور جانوروں کو نقصان پہنچتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو جو بانی فساد ہوں ناپسند کرتا ہے۔ ان بدکرداروں کو جب وعظ نصیحت کے ذریعہ سمجھایا جائے تو یہ اور بھڑک اٹھتے ہیں اور مخالفت کے جوش میں گناہوں پر آمادہ ہو جاتے ہیں آیت «وَاِذَا تُتْلٰى عَلَيْهِمْ اٰيٰتُنَا بَيِّنٰتٍ تَعْرِفُ فِيْ وُجُوْهِ الَّذِيْنَ كَفَرُوا الْمُنْكَرَ يَكَادُوْنَ يَسْطُوْنَ بِالَّذِيْنَ يَتْلُوْنَ عَلَيْهِمْ اٰيٰتِنَا قُلْ اَفَاُنَبِّئُكُمْ بِشَرٍّ مِّنْ ذٰلِكُمْ اَلنَّارُ وَعَدَهَا اللّٰهُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا وَبِئْسَ الْمَصِيْرُ»[ 22۔ الحج: 72 ] یعنی اللہ تعالیٰ کے کلام کی آیتیں جب ان کے سامنے تلاوت کی جاتی ہیں تو ان کافروں کے منہ چڑھ جاتے ہیں اور پڑھنے والوں پر جھپٹتے ہیں، سنو، اس سے بھی بڑھ کر سنو، کافروں کے لیے ہمارا فرمان جہنم کا ہے جو بدترین جگہ ہے، یہاں بھی یہی فرمایا کہ انہیں جہنم کافی ہے یعنی سزا میں وہ بدترین اوڑھنا بچھونا ہے۔