بیان ہو رہا ہے کہ خلیل اللہ علیہ السلام کی باتیں سن کر انہیں خیال تو پیدا ہو گیا۔ اپنے آپ کو اپنی بیوقوفی پر ملامت کرنے لگے۔ سخت ندامت اٹھائی اور آپس میں کہنے لگے کہ ہم نے بڑی غلطی کی، اپنے معبودوں کے پاس کسی کو حفاظت کیلئے نہ چھوڑا اور چل دئیے۔ پھر غور وفکر کر کے بات بنائی کہ آپ علیہ السلام جو کچھ ہم سے کہتے ہیں کہ ان سے ہم پوچھ لیں کہ تمہیں کس نے توڑا ہے تو کیا آپ علیہ السلام کو علم نہیں کہ یہ بت بے زبان ہیں؟
عاجزی، حیرت اور انتہائی لاجوابی کی حالت میں انہیں اس بات کا اقرار کرنا پڑا۔ اب خلیل اللہ علیہ السلام کو خاصا موقعہ مل گیا اور آپ علیہ السلام فوراً فرمانے لگے کہ ”بے زبان، بے نفع و ضرر چیز کی عبادت کیسی؟ تم کیوں اس قدر بے سمجھ ہو رہے ہو؟ تف ہے تم پر اور تمہارے ان جھوٹے خداؤں پر۔ آہ کس قدر ظلم وجہل ہے کہ ایسی چیزوں کی پرستش کی جائے اور اللہ واحد کو چھوڑ دیا جائے؟ یہی تھیں وہ دلیلیں جن کا ذکر پہلے ہوا تھا کہ «وَتِلْكَ حُجَّتُنَا آتَيْنَاهَا إِبْرَاهِيمَ عَلَىٰ قَوْمِهِ»[6-الأنعام:83] ” ہم نے ابراہیم کو وہ دلیلیں سکھا دیں جن سے قوم حقیقت تک پہنچ جائے “۔