تفسير ابن كثير



باب

قوم کے یہ لوگ مشورہ کرتے ہیں کہ آؤ سب کو جمع کرو اور اسے بلاؤ اور پھر اس کو سزا دو۔ خلیل اللہ علیہ السلام یہی چاہتے تھے کہ کوئی ایسا مجمع ہو اور میں اس میں ان کی غلطیاں ان پر واضح کروں اور ان میں توحید کی تبلیغ کروں، اور انہیں بتلاؤں کہ یہ کیسے ظالم و جاہل ہیں کہ ان کی عبادتیں کرتے ہیں جو نفع نقصان کے مالک نہیں بلکہ اپنی جان کا بھی اختیار نہیں رکھتے۔ چنانچہ مجمع ہوا، سب چھوٹے بڑے آگئے۔

سیدنا ابراہیم علیہ السلام بھی ملزم کی حیثیت سے موجود ہوئے اور آپ علیہ السلام سے سوال ہوا کہ ہمارے خداؤں کے ساتھ یہ لغو حرکت تم نے کی ہے؟ اس پر آپ علیہ السلام نے انہیں قائل معقول کرنے کے لیے فرمایا کہ یہ کام تو ان کے اس بڑے بت نے کیا ہے اور اس کی طرف اشارہ کیا جسے آپ علیہ السلام نے توڑا نہ تھا۔

پھر فرمایا کہ مجھ سے کیا پوچھتے ہو؟ اپنے ان معبودوں سے ہی کیوں دریافت نہیں کرتے کہ تمہارے ٹکڑے اڑانے والا کون ہے؟ اس سے مقصود خلیل اللہ علیہ السلام کا یہ تھا کہ یہ لوگ خودبخود ہی سمجھ لیں کہ یہ پتھر کیا بولیں گے؟ اور جب وہ اتنے عاجز ہیں تو یہ لائق عبادت کیسے ٹھہر سکتے ہیں؟ چنانچہ یہ مقصد بھی آپ کا بفضل الٰہی پورا ہوا اور یہ دوسری ضرب بھی کاری لگی۔

بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے کہ خلیل اللہ نے تین جھوٹ بولے ہیں۔ دو تو راہ اللہ میں: ایک تو انکا یہ فرمانا کہ ان بتوں کو ان کے بڑے نے توڑا ہے۔‏‏‏‏ دوسرا یہ فرمانا کہ میں بیمار ہوں، اور ایک مرتبہ سارہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ سفر میں تھے۔ اتفاق سے ایک ظالم بادشاہ کی حدود سے آپ علیہ السلام گزر رہے تھے، آپ علیہ السلام نے وہاں منزل کی تھی۔

کسی نے بادشاہ کو خبر کر دی کہ ایک مسافر کے ساتھ بہترین عورت ہے اور وہ اس وقت ہماری سلطنت میں ہے۔ بادشاہ نے جھٹ سپاہی بھیجا کہ وہ سارہ رضی اللہ عنہا کو لے آئے۔ اس نے پوچھا کہ تمہارے ساتھ یہ کون ہے؟ ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا میری بہن ہے اس نے کہا اسے بادشاہ کے دربار میں بھیجو۔

آپ علیہ السلام سارہ رضی اللہ عنہا کے پاس گئے اور فرمایا سنو، اس ظالم نے تمہیں طلب کیا ہے اور میں تمہیں اپنی بہن بتا چکا ہوں۔ اگر تم سے بھی پوچھا جائے تو یہی کہنا، اس لیے کہ دین کے اعتبار سے تم میری بہن ہو، روئے زمین پر میرے اور تمہارے سوا کوئی مسلمان نہیں، یہ کہہ کر آپ علیہ السلام چلے آئے۔

سارہ رضی اللہ عنہا وہاں سے چلیں اور آپ علیہ السلام نماز میں کھڑے ہوگئے۔ جب سارہ رضی اللہ عنہا کو اس ظالم نے دیکھا اور ان کی طرف لپکا، اسی وقت اللہ کے عذاب نے اسے پکڑ لیا، ہاتھ پاؤں اینٹھ گئے۔ گھبرا کر عاجزی سے کہنے لگا اے نیک عورت اللہ سے دعا کر کہ وہ مجھے چھوڑ دے میں وعدہ کرتا ہوں کہ تجھے ہاتھ بھی نہیں لگاؤں گا۔ آپ رضی اللہ عنہا نے دعا کی اسی وقت وہ اچھا ہو گیا لیکن اچھا ہوتے ہی اس نے پھر قصد کیا اور آپ رضی اللہ عنہا کو پکڑنا چاہا۔ وہی پھر عذاب الٰہی آ پہنچا اور یہ پہلی دفعہ سے زیادہ سخت پکڑ لیا گیا پھر عاجزی کرنے لگا۔ غرض تین دفعہ پے در پے یہی ہوا۔ تیسری دفعہ چھوٹتے ہی اس نے اپنے قریب کے ملازم کو آواز دی اور کہا تو میرے پاس کسی انسان عورت کو نہیں لایا بلکہ شیطانہ کو لایا ہے۔ جا اسے نکال اور ہاجرہ کو اس کے ساتھ کر دے۔ اسی وقت آپ وہاں سے نکال دی گئیں اور ہاجرہ آپ کے حوالے کی گئیں۔

ابراہیم علیہ السلام نے ان کی آہٹ پاتے ہی نماز سے فراغت حاصل کی اور دریافت فرمایا کہ کہو کیا گزری؟ آپ رضی اللہ عنہا نے فرمایا اللہ نے اس کافر کے مکر کو اسی پر لوٹا دیا اور حاجرہ میری خدمت کے لیے آگئیں۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہا اس حدیث کو بیان فرما کر فرماتے کہ یہ ہیں تمہاری اماں اے آسمانی پانی کے لڑکو
۔ [صحیح بخاری:3358] ‏‏‏‏



https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.