ہم پہلے بھی اس بات کو جتا چکے ہیں کہ موسیٰ علیہ السلام اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر اکثر ملا جلا آتا ہے اور اسی طرح توراۃ اور قرآن کا ذکر بھی عموماً ایک ساتھ ہی ہوتا ہے۔ فرقان سے مراد کتاب [تفسیر ابن جریر الطبری:353/18:] یعنی تورات ہے جو حق و باطل، حرام و حلال میں فرق کرنے والی تھی۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:353/18:] اسی سے جناب موسیٰ علیہ السلام کو مدد ملی۔ کل کی کل آسمانی کتابیں حق وباطل، ہدایت وگمراہی، بھلائی برائی، حلال و حرام میں جدائی کرنے والی ہوتی ہیں۔ ان سے دلوں میں نورانیت، اعمال میں حقانیت، اللہ کا خوف وخشیت، ڈر اور اللہ کی طرف رجوع حاصل ہوتا ہے۔
اسی لیے فرمایا کہ ” اللہ سے ڈرنے والوں کے لیے یہ کتاب نصیحت و پند اور نور و روشنی ہے “۔ پھر ان متقیوں کا وصف بیان فرمایا کہ ” وہ اپنے اللہ سے غائبانہ ڈرتے رہتے ہیں “۔ جیسے جنتیوں کے اوصاف بیان کرتے ہوئے فرمایا آیت «مَنْ خَشِيَ الرَّحْمٰنَ بالْغَيْبِ وَجَاءَ بِقَلْبٍ مُّنِيْبِ»[50-ق:33] ” جو رحمن سے بن دیکھے ڈرتے ہیں اور جھکنے والا دل رکھتے ہیں “۔
اور آیت میں ہے «إِنَّ الَّذِينَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُم بِالْغَيْبِ لَهُم مَّغْفِرَةٌ وَأَجْرٌ كَبِيرٌ»[67-الملک:12] ” جو لوگ اپنے رب کا غائبانہ ڈر رکھتے ہیں، ان کے لیے مغفرت ہے اور بہت بڑا اجر ہے “۔ ان متقیوں کا دوسرا وصف یہ ہے کہ یہ قیامت کا کھٹکا رکھتے ہیں۔ اس کی ہولناکیوں سے لرزاں و ترساں رہتے ہیں۔
پھر فرماتا ہے کہ ” اس قرآن عظیم کو بھی ہم نے ہی نازل فرمایا ہے جس کے آس پاس بھی باطل نہیں آ سکتا۔ جو حکمتوں اور تعریفوں والے اللہ کی طرف سے اترا ہے۔ افسوس کیا اس قدر وضاحت وحقانیت، صداقت ونورانیت والا قرآن بھی اس قابل ہے کہ تم اس کے منکر بنے رہو؟ “