تفسير ابن كثير



فرشتوں کا تذکرہ ٭٭

” ہم حق کو واضح کرتے ہیں، اسے کھول کر بیان کرتے ہیں جس سے باطل دب جاتا ہے، ٹوٹ کر چورا ہو جاتا ہے اور فوراً ہٹ جاتا ہے۔ وہ ہے بھی اسی لائق، وہ ٹھہر نہیں سکتا نہ جم سکتا ہے نہ دیر تک قائم رہ سکتا ہے۔ اللہ کے لیے جو لوگ اولادیں ٹھہرا رہے ہیں، ان کے اس واہی قول کی وجہ سے ان کے لیے ویل ہے انہیں پوری خرابی ہے “۔

پھر ارشاد فرماتا ہے کہ ” جن فرشتوں کو تم اللہ کی لڑکیاں کہتے ہو، ان کا حال سنو اور اللہ کی الوہیت کی عظمت دیکھو۔ آسمان و زمین کی ہرچیز اسی کی ملکیت میں ہے۔ فرشتے اس کی عبادت میں مشغول ہیں۔ ناممکن ہے کہ کسی وقت سرکشی کریں “۔

«لَّن يَسْتَنكِفَ الْمَسِيحُ أَن يَكُونَ عَبْدًا لِّلَّـهِ وَلَا الْمَلَائِكَةُ الْمُقَرَّبُونَ وَمَن يَسْتَنكِفْ عَنْ عِبَادَتِهِ وَيَسْتَكْبِرْ فَسَيَحْشُرُهُمْ إِلَيْهِ جَمِيعًا» [4-النساء:172] ‏‏‏‏ ” نہ مسیح کو بندہ رب ہونے سے شرم، نہ فرشتوں کو اللہ کی عبادت سے عار، نہ ان میں سے کوئی تکبر کرے یا عبادت سے جی چرائے اور جو کوئی ایسا کرے تو ایک وقت آ رہا ہے کہ وہ اللہ کے سامنے میدان محشر میں سب کے ساتھ ہو گا اور اپنا کیا بھرے گا “۔

یہ بزرگ فرشتے اس کی عبادت سے تھکتے بھی نہیں، گھبراتے بھی نہیں، سستی اور کاہلی ان کے پاس بھی نہیں پھٹکتی۔ دن رات اللہ کی فرماں برداری میں، اس کی عبادت میں، اس کی تسبیح و اطاعت میں لگے ہوئے ہیں۔ نیت اور عمل دونوں موجود ہیں۔

«لَّا يَعْصُونَ اللَّـهَ مَا أَمَرَهُمْ وَيَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ» [66-التحریم:6] ‏‏‏‏ ” اللہ کی کوئی نافرمانی نہیں کرتے نہ کسی فرمان کی تعمیل سے رکتے ہیں “۔

ابن ابی حاتم میں ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ رضی اللہ عنہم کے مجمع میں تھے کہ فرمایا: لوگو! جو میں سنتا ہوں کیا تم بھی سنتے ہو؟ سب نے جواب دیا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! ہم تو کچھ بھی نہیں سن رہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں آسمانوں کی چرچراہٹ سن رہا ہوں اور حق تو یہ ہے کہ اسے چرچرانا ہی چاہیئے، اس لیے کہ اس میں ایک بالشت بھر جگہ ایسی نہیں جہاں کسی نہ کسی فرشتے کا سر سجدے میں نہ ہو ۔ [سلسلة احادیث صحیحه البانی:1060،] ‏‏‏‏

عبداللہ بن حارث بن نوفل فرماتے ہیں، میں کعب احبار رحمتہ اللہ علیہ کے پاس بیٹھا ہوا تھا، اس وقت میں چھوٹی عمر کا تھا، میں نے ان سے اس آیت کا مطلب پوچھا کہ بولنا چالنا، اللہ کا پیغام لے کر جانا، عمل کرنا یہ بھی انہیں تسبیح سے نہیں روکتا؟ میرے اس سوال پر چوکنے ہوکر آپ رحمہ اللہ نے فرمایا، یہ بچہ کون ہے؟ لوگوں نے کہا بنو عبدالمطلب میں سے ہے۔ آپ رحمہ اللہ نے میری پیشانی چوم لی اور فرمایا، پیارے بچے تسبیح ان فرشتوں کے لیے ایسی ہی ہے جیسے ہمارے لیے سانس لینا۔ دیکھو چلتے پھرتے، بولتے چالتے تمہارا سانس برابر آتا جاتا رہتا ہے۔ اسی طرح فرشتوں کی تسبیح ہر وقت جاری رہتی ہے۔‏‏‏‏ [تفسیر ابن جریر الطبری:12/17:] ‏‏‏‏



https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.