عربی دان حضرات نے کہا ہے کہ مطلب اگلے جملہ کا یہ ہے کہ حج حج ہے ان مہینوں کا جو معلوم اور مقرر ہیں، پس حج کے مہینوں میں احرام باندھنا دوسرے مہینوں کے احرام سے زیادہ کامل ہے، گو اور ماہ کا احرام بھی صحیح ہے، امام مالک، امام ابوحنیفہ، امام احمد، امام اسحٰق، امام ابراہیم نخعی، امام ثوری، امام لیث، اللہ تعالیٰ ان پر سب رحمتیں نازل فرمائے فرماتے ہیں کہ سال بھر میں جس مہینہ میں چاہے حج کا احرام باندھ سکتا ہے ان بزرگوں کی دلیل «يَسْأَلُونَكَ عَنِ الْأَهِلَّةِ قُلْ هِيَ مَوَاقِيتُ لِلنَّاسِ وَالْحَجِّ»[ 2-البقرہ: 189 ] الخ ہے، دوسری دلیل یہ ہے کہ حج اور عمرہ دونوں کو نسک کہا گیا ہے اور عمرے کا احرام حج کے مہینوں میں ہی باندھنا صحیح ہو گا بلکہ اگر اور ماہ میں حج کا احرام باندھا تو غیر صحیح ہے لیکن اس سے عمرہ بھی ہوسکتا ہے یا نہیں؟ اس میں امام صاحب کے دو قول ہیں ابن عباس جابر، عطا مجاہد رحمہم اللہ کا بھی یہی مذہب ہے کہ حج کا احرام حج کے مہینوں کے سوا باندھنا غیر صحیح ہے اور اس پر دلیل «الْحَجُّ أَشْهُرٌ مَّعْلُومَاتٌ»[ 2۔ البقرہ: 197 ] ہے عربی دان حضرات کی ایک دوسری جماعت کہتی ہے کہ آیت کے ان الفاظ سے مطلب یہ ہے کہ حج کا وقت خاص خاص مقرر کردہ مہینے میں تو ثابت ہوا کہ ان مہینوں سے پہلے حج کا جو احرام باندھے گا وہ صحیح نہ ہو گا جس طرح نماز کے وقت سے پہلے کوئی نماز پڑھ لے، امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ہمیں مسلم بن خالد نے خبر دی انہوں نے ابن جریج سے سنا اور انہیں عمرو بن عطاء نے کہا ان سے عکرمہ نے ذکر کیا کہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کا فرمان ہے کہ کسی شخص کو لائق نہیں کہ حج کے مہینوں کے سوا بھی حج کا احرام باندھے کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے «الْحَجُّ أَشْهُرٌ مَّعْلُومَاتٌ»[ 2۔ البقرہ: 197 ] اس روایت کی اور بھی بہت سی سندیں ہیں۔
ایک سند میں ہے کہ سنت یہی ہے، صحیح ابن خزیمہ میں بھی یہ روایت منقول ہے، اصول کی کتابوں میں یہ مسئلہ طے شدہ ہے کہ صحابی کا فرمان حکم میں مرفوع حدیث کے مساوی ہوتا ہے پس یہ حکم رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہو گیا اور صحابی بھی یہاں وہ صحابی ہیں جو مفسر قرآن اور ترجمان القرآن ہیں، علاوہ ازیں ابن مردویہ کی ایک مرفوع حدیث میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ حج کا احرام باندھنا کسی کو سوا حج کے مہینوں کے لائق نہیں، اس کی اسناد بھی اچھی ہیں، لیکن شافعی رحمہ اللہ اور بیہقی رحمہ اللہ نے روایت کی ہے کہ اس حدیث کے راوی سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے پوچھا گیا کہ حج کے مہینوں سے پہلے حج کا احرام باندھ لیا جائے تو آپ رضی اللہ عنہما نے فرمایا نہیں، [بیہقی:343/4:ضعیف] یہ موقوف حدیث ہی زیادہ ثابت اور زیادہ صحیح ہے اور صحابی کے اس فتویٰ کی تقویت سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے اس قول سے بھی ہوتی ہے کہ سنت یوں ہے «وَاللهُ اَعْلَمُ»
اشہر معلومات سے مراد سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں شوال ذوالقعدہ اور دس دن ذوالحجہ کے ہیں [بخاری:کتاب الحج،تعلیقًا قبل الحدیث،1560] یہ روایت ابن جریر میں بھی ہے، مستدرک حکم میں بھی ہے اور امام حاکم اسے صحیح بتلاتے ہیں۔ [حاکم:276/2:صحیح] عمر، عطا، مجاہد، ابراہیم نخعی، شعبی، حسن، ابن سیرین، مکحول، قتادہ، ضحاک بن مزاحم، ربیع بن انس، مقاتل بن حیان رحمہم اللہ بھی یہی کہتے ہیں، [تفسیر ابن ابی حاتم:486/2] امام شافعی، امام ابوحنیفہ، امام احمد بن حنبل، ابو یوسف اور ابوثور رحمۃ اللہ علیہم کا بھی یہی مذہب ہے، امام ابن جریر بھی اسی قول کو پسند فرماتے ہیں اشہر کا لفظ جمع ہے تو اس کا اطلاق دو پورے مہینوں اور تیسرے کے بعض حصے پر بھی ہوسکتا ہے، جیسے عربی میں کہا جاتا ہے کہ میں نے اس سال یا آج کے دن اسے دیکھا ہے پس حقیقت میں سارا سال اور پورا دن تو دیکھتا نہیں رہتا بلکہ دیکھنے کا وقت تھوڑا ہی ہوتا ہے مگر اغلباً [ تقریباً ] ایسا بول دیا کرتے ہیں اسی طرح یہاں بھی اغلباً [تقریباً] تیسرے مہینہ کا ذکر ہے قرآن میں بھی ہے «فَمَنْ تَعَـجَّلَ فِيْ يَوْمَيْنِ فَلَآ اِثْمَ عَلَيْهِ»[ 2۔ البقرہ: 203 ] حالانکہ وہ جلدی ڈیڑھ دن کی ہوتی ہے مگر گنتی میں دو دن کہے گئے، امام مالک، امام شافعی رحمہ اللہ علیہما کا ایک پہلا قول یہ بھی ہے کہ شوال ذوالقعدہ اور ذوالحجہ کا پورا مہینہ ہے،
سیدنا ابن عمر سے بھی یہی مروی ہے، ابن شہاب، عطاء رحمہ اللہ علیہما، سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے بھی یہی مروی ہے طاؤس، مجاہد، عروہ ربیع اور قتادہ رحمہ اللہ علیہم سے بھی یہی مروی ہے ایک مرفوع حدیث میں بھی یہ آیا ہے لیکن وہ موضوع ہے، کیونکہ اس کا راوی حسین بن مخارق ہے جس پر احادیث کو وضع کرنے کی تہمت ہے، بلکہ اس کا مرفوع ہونا ثابت نہیں۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ»
امام مالک کے اس قول کو مان لینے کے بعد یہ ثابت ہوتا ہے کہ ذوالحجہ کے مہینے میں عمرہ کرنا صحیح نہ ہو گا یہ مطلب نہیں کہ دس ذی الحجہ کے بعد بھی حج ہو سکتا ہے، چنانچہ سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حج کے مہینوں میں عمرہ درست نہیں، امام ابن جریر رحمہ اللہ بھی ان اقوال کا یہی مطلب بیان کرتے ہیں کہ حج کا زمانہ تو منیٰ کے دن گزرتے ہی جاتا رہا، محمد بن سیرین رحمہ اللہ کا بیان ہے کہ میرے علم میں تو کوئی اہل علم ایسا نہیں جو حج کے مہینوں کے علاوہ عمرہ کرنے کو ان مہینوں کے اندر عمرہ کرنے سے افضل ماننے میں شک کرتا ہو، قاسم بن محمد رحمہ اللہ سے ابن عون نے حج کے مہینوں میں عمرہ کرنے کے مسئلہ کو پوچھا تو آپ رحمہ اللہ نے جواب دیا کہ اسے لوگ پورا عمرہ نہیں مانتے، سیدنا عمر اور عثمان رضی اللہ عنہما نے بھی حج کے مہینوں کے علاوہ عمرہ کرنا پسند فرماتے تھے بلکہ ان مہینوں میں عمرہ کرنے کو منع کرتے تھے «وَاللهُ اَعْلَمُ»
[ اس سے اگلی آیت کی تفسیر میں گزر چکا ہے ] کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ذوالقعدہ میں چار عمرے ادا فرمائے ہیں اور ذوالقعدہ بھی حج کا مہینہ ہے پس حج کے مہینوں میں عمرہ ادا فرماتے ہیں اور ذوالقعدہ بھی حج کا مہینہ ہے پس حج کے مہینوں میں عمرہ کرنا جائز ٹھہرا «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔ پھر ارشاد ہوتا ہے کہ جو شخص ان مہینوں میں حج مقرر کرے یعنی حج کا احرام باندھ لے اس سے ثابت ہوا کہ حج کا احرام باندھنا اور اسے پورا کرنا لازم ہے، فرض سے مراد یہاں واجب و لازم کر لینا ہے، [تفسیر ابن جریر الطبری:121/4]
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں حج اور عمرے کا احرام باندھنے والے سے مراد ہے۔ عطاء رحمہ اللہ فرماتے ہیں فرض سے مراد احرام ہے، ابراہیم اور ضحاک رحمہ اللہ علیہما کا بھی یہی قول ہے، [تفسیر ابن جریر الطبری:123/4] سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں احرام باندھ لینے اور لبیک پکار لینے کے بعد کہیں ٹھہرا رہنا ٹھیک نہیں اور بزرگوں کا بھی یہی قول ہے، بعض بزرگوں نے یہ بھی کہا ہے کہ فرض سے مراد لبیک پکارنا ہے۔ [ رفث ] سے مراد جماع ہے جیسے اور جگہ قرآن میں ہے آیت «اُحِلَّ لَكُمْ لَيْلَةَ الصِّيَامِ الرَّفَثُ اِلٰى نِسَاىِٕكُمْ»[ 2۔ البقرہ: 187 ] یعنی روزے کی راتوں میں اپنی بیویوں سے جماع کرنا تمہارے لیے حلال کیا گیا ہے، احرام کی حالت میں جماع اور اس کے تمام مقدمات بھی حرام ہیں جیسے مباشرت کرنا، بوسہ لینا، ان باتوں کا عورتوں کی موجودگی میں ذکر کرنا۔ گویا بعض نے مردوں کی محفلوں میں بھی ایسی باتیں کرنے کو دریافت کرنے پر فرمایا کہ عورتوں کے سامنے اس قسم کی باتیں کرنا رفث ہے۔ رفث کا ادنیٰ درجہ یہ ہے کہ جماع وغیرہ کا ذکر کیا جائے، فحش باتیں کرنا، دبی زبان سے ایسے ذکر کرنا، اشاروں کنایوں میں جماع کا ذکر، اپنی بیوی سے کہنا کہ احرام کھل جائے تو جماع کریں گے، چھیڑ چھاڑ کرنا، مساس کرنا وغیرہ یہ سب رفث میں داخل ہے اور احرام کی حالت میں یہ سب باتیں حرام ہیں مختلف مفسروں کے مختلف اقوال کا مجموعہ یہ ہے۔
فسوق کے معنی عصیان ونافرمانی شکار گالی گلوچ وغیرہ بد زبانی ہے جیسے حدیث میں ہے مسلمان کو گالی دینا فسق ہے اور اسے قتل کرنا کفر ہے، [صحیح بخاری:48] اللہ کے سوا دوسرے کے تقرب کے لیے جانوروں کو ذبح کرنا بھی فسق ہے جیسے قرآن کریم میں ہے آیت «اَوْ فِسْقًا اُهِلَّ لِغَيْرِ اللّٰهِ بِهٖ»[ 6۔ الانعام: 145 ] بد القاب سے یاد کرنا بھی فسق ہے قرآن فرماتا ہے آیت «وَلَا تَنَابَزُوا بِالْأَلْقَابِ»[ 49-الحجرات: 11 ] مختصر یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ہرنافرمانی فسق میں داخل ہے گو یہ فسق ہر وقت حرام ہے لیکن حرمت والے مہینوں میں اس کی حرمت اور بڑھ جاتی ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے آیت «فَلَا تَظْلِمُوْا فِيْهِنَّ اَنْفُسَكُمْ وَقَاتِلُوا الْمُشْرِكِيْنَ كَافَّةً كَمَا يُقَاتِلُوْنَكُمْ كَافَّةً»[ 9۔ التوبہ: 136 ] ان حرمت والے مہینوں میں اپنی جان پر ظلم نہ کرو اس طرح حرم میں بھی یہ حرمت بڑھ جاتی ہے ارشاد ہے آیت «وَمَنْ يُّرِدْ فِيْهِ بِاِلْحَادٍ بِظُلْمٍ نُّذِقْهُ مِنْ عَذَابٍ اَلِيْمٍ»[ 22۔ الحج: 25 ] یعنی حرم میں جو الحاد اور بے دینی کا ارادہ کرے اور اسے ہم المناک عذاب دیں گے،
امام ابن جریر رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہاں مراد فسق سے وہ کام ہیں جو احرام کی حالت میں منع ہیں جیسے شکار کھیلنا بال منڈوانا یا کتروانا یا ناخن لینا وغیرہ، سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ سے بھی یہی مروی ہے لیکن بہترین تفسیر وہی ہے جو ہم نے بیان کی یعنی ہر گناہ سے روکا گیا ہے۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:126/4] «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔
بخاری و مسلم میں ہے جو شخص بیت اللہ کا حج کرے نہ رفث کرے نہ فسق تو وہ گناہوں سے ایسا نکل جاتا ہے جیسے اپنے پیدا ہونے کا دن تھا۔ [صحیح بخاری:1521] پھر ارشاد ہوتا ہے کہ حج میں جھگڑا نہیں یعنی حج کے وقت اور حج کے ارکان وغیرہ میں جھگڑا نہ کرو اور اس کا پورا بیان اللہ تعالیٰ نے فرما دیا ہے، حج کے مہینے مقرر ہو چکے ہیں ان میں کمی زیادتی نہ کرو، موسم حج کو آگے پیچھے نہ کرو جیسا کہ مشرکین کا وطیرہ تھا جس کی مذمت قرآن کریم میں اور جگہ فرما دی گئی ہے اسی طرح قریش مشعرِ حرام کے پاس مزدلفہ میں ٹھہر جاتے تھے اور باقی عرب عرفات میں ٹھہرتے تھے پھر آپس میں جھگڑتے تھے اور ایک دوسرے سے کہتے تھے کہ ہم صحیح راہ پر اور طریق ابراہیمی پر ہیں جس سے یہاں ممانعت کی جا رہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں وقت حج ارکان حج اور ٹھہرنے وغیرہ کی جگہیں بیان کر دی ہیں اب نہ کوئی ایک دوسرے پر فخر کرے نہ حج کے دن آگے پیچھے کرے بس یہ جھگڑے اب مٹا دو۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ»
یہ مطلب بھی بیان کیا گیا ہے کہ حج کے سفر میں آپس میں نہ جھگڑو نہ ایک دوسرے کو غصہ دلاؤ نہ کسی کو گالیاں دو، بہت سے مفسرین کا یہ قول بھی ہے اور بہت سے مفسرین کا پہلا قول بھی ہے، عکرمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ کسی کا اپنے غلام کو ڈانٹ ڈپٹ کرنا یہ اس میں داخل نہیں ہاں مارے نہیں، لیکن میں کہتا ہوں کہ غلام کو اگر مار بھی لے تو کوئی ڈر خوف نہیں۔
مسند احمد کی حدیث میں ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر حج میں تھے ور عرج میں ٹھہرے ہوئے تھے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھی ہوئی تھیں اور سیدہ اسماء رضی اللہ عنہ اپنے والد سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھی ہوئی تھیں سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہما اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اونٹوں کا سامان سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہما کے خادم کے پاس تھا سیدنا صدیق رضی اللہ عنہما اس کا انتظار کر رہے تھے تھوڑی دیر میں وہ آ گیا اس سے پوچھا کہ اونٹ کہاں ہے؟ اس نے کہا کل رات کو گم ہو گیا آپ رضی اللہ عنہما ناراض ہوئے اور فرمانے لگے ایک اونٹ کو بھی تو سنبھال نہ سکا یہ کہہ کر آپ رضی اللہ عنہما نے اسے مارا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسکرا رہے تھے اور فرماتے جا رہے تھے دیکھو احرام کی حالت میں کیا کر رہے ہیں؟ یہ حدیث ابوداؤد اور ابن ماجہ میں بھی ہے، [سنن ابوداود:1818، قال الشيخ الألباني:حسن]
بعض سلف سے یہ بھی مروی ہے کہ حج کے تمام ہونے میں یہ بھی ہے لیکن یہ خیال رہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے اس کام پر یہ فرمانا اس میں نہایت لطافت کے ساتھ ایک قسم کا انکار ہے پس مسئلہ یہ ہوا کہ اسے چھوڑ دینا ہی اولیٰ ہے «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔
مسند عبد بن حمید میں ہے کہ جو شخص اپنا حج پورا کرے اور مسلمان اس کی زبان اور ہاتھ سے ایذاء نہ پائیں اس کے تمام اگلے گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔ [عبد بن حمید:1150:ضعیف] پھر فرمایا تم جو بھلائی کرو اس کا علم اللہ تعالیٰ کو ہے، چونکہ اوپر ہر برائی سے روکا تھا کہ نہ کوئی برا کام کرو نہ بری بات کہو تو یہاں نیکی کی رغبت دلائی جا رہی ہے کہ ہر نیکی کا پورا بدلہ قیامت کے دن پاؤ گے۔
پھر ارشاد ہوتا ہے کہ توشہ اور سفر خرچ لے لیا کرو سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں لوگ بلا خرچ سفر کو نکل کھڑے ہوتے تھے پھر لوگوں سے مانگتے پھرتے جس پر یہ حکم ہوا، [تفسیر ابن جریر الطبری:3736] عکرمہ، عیینہ رحمہ اللہ علیہما بھی یہی فرماتے ہیں، بخاری نسائی وغیرہ میں یہ روایتیں مروی ہیں، ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ یمنی لوگ ایسا کرتے تھے اور اپنے تئیں متوکل کہتے تھے، [صحیح بخاری:1523] سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے یہ بھی روایت ہے کہ جب احرام باندھتے تو جو کچھ توشہ بھنا ہوتا سب پھینک دیتے اور نئے سرے سے نیا سامان کرتے اس پر یہ حکم ہوا کہ ایسا نہ کرو آٹا ستو وغیرہ توشے ہیں ساتھ لے لو۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:156/4] دیگر بہت سے معتبر مفسرین نے بھی اسی طرح کہا ہے بلکہ ابن عمر رضی اللہ عنہما تو یہ بھی فرماتے ہیں کہ انسان کی عزت اسی میں ہے کہ وہ عمدہ سامان سفر ساتھ رکھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھیوں سے دل کھول کر خرچ کرنے کی شرط کر لیا کرتے تھے۔
چونکہ دنیوی توشہ کا حکم دیا ہے تو ساتھ ہی فرمایا ہے کہ آخرت کے توشہ کی تیاری بھی کر لو یعنی اپنی قبر میں اپنے ساتھ خوف اللہ لے کر جاؤ جیسے اور جگہ لباس کا ذکر کر کے ارشاد فرمایا آیت «وَلِبَاسُ التَّقْوٰى ذٰلِكَ خَيْرٌ»[ 7۔ الاعراف: 26 ] پرہیزگاری کا لباس بہتر ہے، یعنی خشوع خضوع طاعت وتقویٰ کے باطنی لباس سے بھی خالی نہ رہو، بلکہ یہ لباس اس ظاہری لباس سے کہیں زیادہ بہتر اور نفع دینے والا ہے، ایک حدیث میں بھی ہے کہ دنیا میں اگر کچھ کھوؤ گے تو آخرت میں پاؤ گے یہاں کا توشہ وہاں فائدہ دے گا [طبرانی کبیر:2271:صحیح] اس حکم کو سن کر ایک مسکین صحابی رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تو کچھ ہے ہی نہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اتنا تو ہونا چاہیئے جس سے کسی سے سوال نہ کرنا پڑے اور بہترین خزانہ اللہ تعالیٰ کا خوف ہے۔ [ ابن ابی حاتم ]
پھر ارشاد ہوتا ہے کہ «وَاتَّقُونِ يَا أُولِي الْأَلْبَابِ»[ 2-البقرہ: 197 ] عقلمندو مجھ سے ڈرتے رہا کرو، یعنی میرے عذابوں سے، میری پکڑ دھکڑ سے، میری گرفت سے، میری سزاؤں سے ڈرو، دب کر میرے احکام کی تعمیل کرو، میرے ارشاد کے خلاف نہ کرو تاکہ نجات پا سکو یہ ہی عقلی امتیاز ہے۔