فرمان ہے کہ ” جن کے دلوں میں توحید رچی ہوئی ہے اور جن کے اعمال میں سنت کا نور ہے، ضروری بات ہے کہ ہم اپنے بندوں کے دلوں میں ان کی محبت پیدا کر دیں گے “۔
چنانچہ حدیث شریف میں ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کسی بندے سے محبت کرنے لگتا ہے تو جبرائیل علیہ السلام کو بلا کر فرماتا ہے کہ ” میں فلاں سے محبت رکھتا ہوں تو بھی فلاں انسان سے محبت رکھ “۔ اللہ تعالیٰ کا یہ امین فرشتہ بھی اس سے محبت کرنے لگتا ہے۔ پھر آسمانوں میں ندا کی جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ فلاں انسان سے محبت رکھتا ہے، اے فرشتو! تم بھی اس سے محبت رکھو چنانچہ کل آسمانوں کے فرشتے اس سے محبت کرنے لگتے ہیں پھر اس کی مقبولیت زمین پر اتاری جاتی ہے۔ اور جب کسی بندے سے اللہ تعالیٰ ناراض ہو جاتا ہے تو جبرائیل علیہ السلام سے فرماتا ہے کہ ” اس سے میں ناخوش ہوں تو بھی اس سے عداوت رکھ “، جبرائیل علیہ السلام بھی اس کے دشمن بن جاتے ہیں۔ پھر آسمانوں میں ندا کر دیتے ہیں کہ فلاں دشمن رب ہے، تم سب اس سے بیزار رہنا چنانچہ آسمان والے اس سے بگڑ بیٹھتے ہیں۔ پھر وہی غضب اور ناراضگی زمین پر نازل ہوتی ہے ۔ [صحیح بخاری:3209]
مسند احمد میں ہے کہ جو بندہ اپنے مولا کی مرضی کا طالب ہو جاتا ہے اور اس کی خوشی کے کاموں میں مشغول ہو جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ عزوجل جبرائیل علیہ السلام سے فرماتا ہے کہ ” میرا فلاں بندہ مجھے خوش کرنا چاہتا ہے۔ سنو میں اس سے خوش ہو گیا میں نے اپنی رحمتیں اس پر نازل کرنی شروع کر دیں “۔ پس جبرائیل علیہ السلام ندا کرتے ہیں کہ فلاں پر رحمت الٰہی ہو گئی۔ پھر حاملان عرش بھی یہی منادی کرتے ہیں۔ پھر ان کے پاس والے غرض ساتوں آسمانوں میں یہ آواز گونج جاتی ہے، پھر زمین پر اس کی مقبولیت اترتی ہے ۔ [مسند احمد:279/5:حسن] یہ حدیث غریب ہے۔
ایسی ہی ایک اور حدیث بھی مسند احمد میں غرابت والی ہے جس میں یہ بھی ہے کہ محبت اور شہرت کسی کی برائی یا بھلائی کے ساتھ آسمانوں سے اللہ کی جانب سے اترتی ہے ۔ [مسند احمد:263/5:صحیح لغیرہ]
ابن ابی حاتم میں اسی قسم کی حدیث کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اس آیت قرآنی کو پڑھنا بھی مروی ہے ۔ [صحیح مسلم:2637]
پس مطلب آیت کا یہ ہوا کہ نیک عمل کرنے والے ایمانداروں سے اللہ خود محبت کرتا ہے اور زمین پر بھی ان کی محبت اور مقبولیت اتاری جاتی ہے۔ مومن ان سے محبت کرنے لگتے ہیں۔ ان کا ذکر خیر ہوتا ہے اور ان کی موت کے بعد بھی ان کی بہترین شہرت باقی رہتی ہے۔
مصرم بن حبان کہتے ہیں کہ جو بندہ سچے اور مخلص دل سے اللہ کی طرف جھکتا ہے، اللہ تعالیٰ مومنوں کے دلوں کو اس کی طرف جھکا دیتا ہے وہ اس سے محبت اور پیار کرنے لگتے ہیں۔ سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے بندہ جو بھلائی برائی کرتا ہے اللہ تعالیٰ اسے اسی کی چادر اوڑھا دیتا ہے۔
حضرت حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ”ایک شخص نے ارادہ کیا کہ میں اللہ تعالیٰ کی عبادت اس طرح کروں گا کہ تمام لوگوں میں میری نیکی کی شہرت ہو جائے اب وہ عبادت الٰہی کی طرف جھک پڑا۔ جب دیکھو نماز میں مسجد میں سب سے اول آئے اور سب کے بعد جائے اسی طرح سات ماہ اسے گزر گئے لیکن اس نے جب بھی سنا یہی سنا کہ لوگ اسے ریا کار کہتے ہیں۔ اس نے یہ حالت دیکھ کر اب اپنے جی میں عہد کر لیا کہ میں صرف اللہ کی خوشنودی کے لیے عمل کروں گا، کسی عمل میں تو نہ بڑھا لیکن خلوص کے ساتھ اعمال شروع کر دئے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ تھوڑے ہی دنوں میں ہر شخص کی زبان سے نکلنے لگا کہ اللہ تعالیٰ فلاں شخص پر رحم فرمائے اب تو وہ واقعی اللہ والا بن گیا ہے۔ پھر آپ نے اسی آیت کی تلاوت کی۔“
ابن جریر میں ہے کہ یہ آیت سیدنا عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ کی ہجرت کے بارے میں نازل ہوئی ہے لیکن یہ قول درست نہیں، اس لیے کہ یہ پوری سورت مکے میں نازل ہوئی ہے، ہجرت کے بعد اس سورت کی کسی آیت کا نازل ہونا ثابت نہیں۔ اور جو اثر امام صاحب نے وارد کیا ہے وہ سنداً بھی صحیح نہیں «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔
” ہم نے اس قرآن کو اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تیری زبان میں یعنی عربی زبان میں بالکل آسان کر کے نازل فرمایا ہے جو فصاحت و بلاغت والی بہترین زبان ہے تاکہ تو انہیں جو اللہ کا خوف رکھتے ہیں، دلوں میں ایمان اور ظاہر میں نیک اعمال رکھتے ہیں، اللہ کی بشارتیں سنا دے اور جو حق سے ہٹے ہوئے، باطل پر مٹے ہوئے، استقامت سے دور، خود بینی میں مخمور، جھگڑالو، جھوٹے، اندھے، بہرے، فاسق، فاجر، ظالم، گنہگار، بد کردار ہیں انہیں اللہ کی پکڑ سے اور اس کے عذابوں سے متنبہ کر دے “، جیسے قریش کے کفار وغیرہ۔
” بہت سی امتوں کو جنہوں نے اللہ کے ساتھ کفر کیا تھا، نبیوں کا انکار کیا تھا، ہم نے ہلاک کر دیا۔ جن میں سے ایک بھی باقی نہیں بچا۔ ایک کی آواز بھی دنیا میں نہیں رہی “۔ «رِكْزًا» کے لفظی معنی ہلکی اور دھیمی آواز کے ہیں۔