جس طرح گمراہوں کی گمراہی بڑھتی رہتی ہے، اسی طرح ہدایت والوں کی ہدایت بڑھتی رہتی ہے۔ جیسے فرمان ہے کہ «وَإِذَا مَا أُنزِلَتْ سُورَةٌ فَمِنْهُم مَّن يَقُولُ أَيُّكُمْ زَادَتْهُ هَـٰذِهِ إِيمَانًا فَأَمَّا الَّذِينَ آمَنُوا فَزَادَتْهُمْ إِيمَانًا وَهُمْ يَسْتَبْشِرُونَ» الخ [9-التوبة:124] ” جہاں کوئی سورت اترتی ہے تو بعض لوگ کہنے لگتے ہیں، تم میں سے کس کو اس نے ایمان میں زیادہ کر دیا؟ “ الخ۔
باقیات صالحات کی پوری تفسیر ان ہی لفظوں کی تشریح میں سورۃ الکہف میں گزر چکی ہے۔ یہاں فرماتا ہے کہ ” یہی پائیدار نیکیاں جزا اور ثواب کے لحاظ سے اور انجام اور بدلے کے لحاظ سے نیکوں کے لیے بہتر ہیں “۔
عبدالرزاق میں ہے کہ ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک خشک درخت تلے بیٹھے ہوئے تھے اس کی شاخ پکڑ کر ہلائی تو سوکھے پتے جھڑنے لگے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دیکھو اسی طرح انسان کے گناہ «لَآ اِلٰهَ اِلَّا اﷲُ وَاﷲُ اَکْبَرُ سُبْحَانَ اﷲِ وَالْحَمْدُِ ﷲِ» کہنے سے جھڑتے ہیں۔ اے ابودرداء ان کا ورد رکھ اس سے پہلے کہ وہ وقت آئے کہ تو انہیں نہ کہہ سکے، یہی باقیات صالحات ہیں، یہی جنت کے خزانے ہیں ۔ اس کو سن کر ابودرداء کا یہ حال تھا کہ اس حدیث کو بیان فرما کر فرماتے کہ واللہ میں تو ان کلمات کو پڑھتا ہی رہوں گا، کبھی ان سے زبان نہ روکوں گا گو لوگ مجھے مجنون کہنے لگیں ۔ [سنن ابن ماجہ:3813،قال الشيخ الألباني:ضعیف] ابن ماجہ میں بھی یہ حدیث دوسری سند سے ہے۔