اپنے خلیل علیہ السلام کا بیان فرما کر اب اپنے کلیم علیہ السلام کا بیان فرماتا ہے۔ «مُخلَصاً» کی دوسری قرأت «مُخلِصاً» بھی ہے۔ یعنی ” وہ بااخلاص عبادت کرنے والے تھے “۔
مروی ہے کہ حواریوں نے عیسیٰ علیہ السلام سے دریافت کیا کہ ”اے روح اللہ! ہمیں بتائیے مخلص شخص کون ہے؟ آپ علیہ السلام نے فرمایا ”جو محض اللہ کے لیے عمل کرے، اسے اس بات کی چاہت نہ ہو کہ لوگ میری تعریفیں کریں۔“
دوسری قرأت میں «مُخْلَصاً» ہے یعنی اللہ کے چیدہ اور برگزیدہ بندے موسیٰ علیہ السلام جیسے فرمان باری ہے «اِنِّى اصْطَفَيْتُكَ عَلَي النَّاسِ»[7-الأعراف:144] آپ اللہ کے نبی اور رسول تھے۔ پانچ بڑے بڑے جلیل القدر اولو العزم رسولوں میں سے ایک آپ علیہ السلام ہیں یعنی نوح، ابراہیم، موسیٰ، عیسیٰ اور محمد صلوات اللہ و سلامہ علیہم وعلی سائر الانبیاء اجمعین۔ ” ہم نے انہیں مبارک پہاڑ طور کی دائیں جانب سے آواز دی اور سرگوشی کرتے ہوئے اپنے قریب کر لیا “۔
یہ واقعہ اس وقت کا ہے جب آپ آگ کی تلاش میں طور کی طرف یہاں آگ دیکھ کر بڑھے تھے۔
ابن عباس رضی اللہ عنہ وغیرہ فرماتے ہیں، ”اس قدر قریب ہو گئے کہ قلم کی آواز سننے لگے۔“ مراد اس سے توراۃ لکھنے کی قلم ہے۔ سدی رحمہ اللہ کہتے ہیں، آسمان میں گئے اور کلام باری سے مشرف ہوئے۔ کہتے ہیں، انہی باتوں میں یہ فرمان بھی ہے کہ ” اے موسیٰ! جب کہ میں تیرے دل کو شکر گزار اور تیری زبان کو اپنا ذکر کرنے والی بنا دوں اور تجھے ایسی بیوی دوں جو نیکی کے کاموں میں تیری معاون ہو تو سمجھ لے کہ میں نے تجھ سے کوئی بھلائی اٹھا نہیں رکھی اور جسے میں یہ چیزیں نہ دوں، سمجھ لے کہ اسے کوئی بھلائی نہیں ملی “۔
” ان پر ایک مہربانی ہم نے یہ بھی کی کہ ان کے بھائی ہارون کو نبی بنا کر ان کی امداد کے لیے ان کے ساتھ کر دیا جیسے کہ آپ علیہ السلام کی چاہت اور دعا تھی “۔ فرمایا تھا «وَاَخِيْ هٰرُوْنُ هُوَ اَفْصَحُ مِنِّيْ لِسَانًا فَاَرْسِلْهُ مَعِيَ رِدْاً يُّصَدِّقُنِيْٓ ۡ اِنِّىْٓ اَخَافُ اَنْ يُّكَذِّبُوْنِ»[28-القص:34] ، اور آیت میں ہے «قَدْ اُوْتِيْتَ سُؤْلَكَ يٰمُوْسٰى»[20-طه:36] ” موسیٰ تیرا سوال ہم نے پورا کر دیا “۔
آپ علیہ السلام کی دعا کے لفظ یہ بھی وارد ہیں «فَاَرْسِلْ اِلٰى هٰرُوْنَ»[26-الشعراء:13] الخ، ” ہارون کو بھی رسول بنا “ الخ۔ کہتے ہیں کہ اس سے زیادہ بہتر دعا اور اس سے بڑھ کر شفاعت کسی نے کسی کی دنیا میں نہیں کی۔ ہارون موسیٰ علیہ السلام سے بڑے تھے۔ «صَلَواةُ الّلهِ وَسَلَامُه عَلَیْهِمْا» ۔