مروی ہے کہ جب آپ فرمان الٰہی تسلیم کر چکیں اور اس کے آگے گردن جھکا دی تو جبرائیل علیہ السلام نے ان کے کرتے کے گریبان میں پھونک ماری۔ جس سے انہیں بحکم رب حمل ٹھہر گیا۔
اب تو سخت گھبرائیں اور یہ خیال کلیجہ مسوسنے لگا کہ میں لوگوں کو کیا منہ دکھاؤں گی؟ لاکھ اپنی برأت پیش کروں لیکن اس انوکھی بات کو کون مانے گا؟ اسی گھبراہٹ میں آپ تھیں، کسی سے یہ واقعہ بیان نہیں کیا تھا۔ ہاں جب آپ اپنی خالہ زکریا علیہ السلام کی بیوی کے پاس گئیں تو وہ آپ سے معانقہ کر کے کہنے لگیں، بچی اللہ کی قدرت سے اور تمہارے خالو کی دعا سے میں اس عمر میں حاملہ ہو گئی ہوں۔ آپ نے فرمایا، خالہ جان میرے ساتھ یہ واقعہ گزرا اور میں بھی اپنے آپ کو اسی حالت میں پاتی ہوں۔
چونکہ یہ گھرانہ نبی کا گھرانہ تھا، وہ قدرت الٰہی پر اور صداقت مریم پر ایمان لائیں۔ اب یہ حالت تھی کہ جب کبھی یہ دونوں پاک عورتیں ملاقات کرتیں تو خالہ صاحبہ یہ محسوس فرماتیں کہ گویا ان کا بچہ بھانجی کے بچے کے سامنے جھکتا ہے اور اس کی عزت کرتا ہے۔ ان کے مذہب میں یہ جائز بھی تھا، اسی وجہ سے یوسف علیہ السلام کے بھائیوں نے اور آپ علیہ السلام کے والد نے آپ علیہ السلام کو سجدہ کیا تھا۔ اور اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو آدم علیہ السلام کے سامنے سجدہ کرنے کا حکم دیا تھا۔ لیکن ہماری شریعت میں یہ تعظیم اللہ تعالیٰ کے لیے مخصوص ہو گئی اور کسی دوسرے کو سجدہ کرنا حرام ہو گیا کیونکہ یہ تعظیم الٰہی کے خلاف ہے۔ اس کی جلالت کے شایان شان نہیں۔
امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں، عیسیٰ علیہ السلام اور یحییٰ علیہ السلام خالہ زاد بھائی تھے۔ دونوں ایک ہی وقت حمل میں تھے۔ یحییٰ علیہ السلام کی والدہ اکثر مریم رضی اللہ عنہا سے فرماتی تھیں کہ مجھے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ میرا بچہ تیرے بچے کے سامنے سجدہ کرتا ہے۔
امام مالک رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں، اس سے عیسیٰ علیہ السلام کی فضیلت ثابت ہوتی ہے۔ کیونکہ اللہ نے آپ علیہ السلام کے ہاتھوں اپنے حکم سے مردوں کو زندہ کر دیا اور مادر زاد اندھوں اور کوڑھیوں کو بھلا چنگا کردیا۔ جمہور کا قول تو یہ ہے کہ آپ نو مہینے تک حمل میں رہے۔ عکرمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں آٹھ ماہ تک۔ اسی لیے آٹھ ماہ کے حمل کا بچہ عموماً زندہ نہیں رہتا۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، حمل کے ساتھ ہی بچہ ہو گیا۔ یہ قول غریب ہے۔ ممکن ہے آپ رضی اللہ عنہ نے آیت کے ظاہری الفاظ سے یہ سمجھا ہو کیونکہ حمل کا الگ ہونے کا اور درد زہ کا ذکر ان آیتوں میں ”ف“ کے ساتھ ہے اور ”ف“ تعقیب کے لیے آتی ہے۔ لیکن تعقیب ہرچیز کی اس کے اعتبار سے ہوتی ہے جیسے عام انسانوں کی پیدائش کا حال آیت قرآن «وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ مِن سُلَالَةٍ مِّن طِينٍ ثُمَّ جَعَلْنَاهُ نُطْفَةً فِي قَرَارٍ مَّكِينٍ»[23-المؤمنون:13،12] میں ہوا ہے۔ کہ ” ہم نے انسان کو بجتی ہوئی مٹی سے پیدا کیا، پھر اسے بصورت نطفہ رحم میں ٹھہرایا، پھر نطفے کو پھٹکی بنایا، پھر اس پھٹکی کو لوتھڑا بنایا، پھر اس لوتھڑے میں ہڈیاں پیدا کیں “۔
یہاں بھی دو جگہ ”ف“ ہے اور ہے بھی تعقیب کے لیے۔ لیکن حدیث سے ثابت ہے کہ ان دو حالتوں میں چالیس دن کافاصلہ ہوتا ہے ۔ [صحیح بخاری:3208]
قرآن کریم کی اور آیت میں ہے «اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰهَ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً ۡ فَتُصْبِحُ الْاَرْضُ مُخْضَرَّةً اِنَّ اللّٰهَ لَطِيْفٌ خَبِيْرٌ»[22-الحج:63] ” کیا تو نے نہیں دیکھا کہ اللہ تعالیٰ آسمان سے بارش برساتا ہے۔ پس زمین سرسبز ہو جاتی ہے “۔
ظاہر ہے کہ پانی برسنے کے بہت بعد سبزہ اگتا ہے۔ حالانکہ ”ف“ یہاں بھی ہے۔ پس تعقیب ہرچیز کی اس چیز کے اعتبار سے ہوتی ہے۔ سیدھی سی بات تو یہ ہے کہ مثل عادت عورتوں کے آپ رضی اللہ عنہا نے حمل کا زمانہ پورا گزارا۔ مسجد میں ہی، مسجد کے خادم ایک صاحب اور تھے جن کا نام یوسف نجار تھا۔ انہوں نے جب مریم علیہا السلام کا یہ حال دیکھا تو دل میں کچھ شک سا پیدا ہوا لیکن مریم کے زہد وتقویٰ، عبادت و ریاضت، خشیت الٰہی اور حق بینی کو خیال کرتے ہوئے انہوں نے یہ برائی دل سے دور کرنی چاہی۔
لیکن جوں جوں دن گزرتے گئے، حمل کا اظہار ہوتا گیا۔ اب تو خاموش نہ رہ سکے، ایک دن با ادب کہنے لگے کہ مریم میں تم سے ایک بات پوچھتا ہوں ناراض نہ ہونا۔ بھلا بغیر بیج کے کسی درخت کا ہونا، بغیر دانے کے کھیت کا ہونا، بغیر باپ کے بچے کا ہونا ممکن بھی ہے؟ آپ ان کے مطلب کو سمجھ گئیں اور جواب دیا کہ یہ سب ممکن ہے، سب سے پہلے جو درخت اللہ تعالیٰ نے اگایا وہ بغیر بیج کے تھا۔ سب سے پہلے جو کھیتی اللہ نے اگائی وہ بغیر دانے کی تھی۔ سب سے پہلے اللہ نے آدم علیہ السلام کو پیدا کیا، وہ بے باپ کے تھے بلکہ بے ماں کے بھی۔ ان کی تو سمجھ میں آگیا اور مریم علیہا السلام کو اور اللہ کی قدرت کو نہ جھٹلا سکے۔
اب صدیقہ نے جب دیکھا کہ قوم کے لوگ ان پر تہمت لگا رہے ہیں تو آپ ان سب کو چھوڑ چھاڑ کر دور دراز چلی گئیں۔
امام محمد بن اسحاق رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں، جب حمل کے حالات ظاہر ہوگئے، قوم نے پھبتیاں پھینکنی، آوازے کسنے اور باتیں بنانی شروع کر دیں اور یوسف نجار جیسے صالح شخص پر یہ تہمت اٹھائی تو آپ ان سب سے کنارہ کش ہوگئیں۔ نہ کوئی انہیں دیکھے نہ آپ کسی کو دیکھیں۔ جب درد زہ اٹھا تو آپ ایک کھجور کے درخت کی جڑ میں آبیٹھیں۔ کہتے ہیں کہ یہ خلوت خانہ بیت المقدس کے مشرقی جانب کا حجرہ تھا۔ یہ بھی قول ہے کہ شام اور مصر کے درمیان آپ پہنچ چکی تھیں، اس وقت بچہ ہونے کا درد شروع ہوا۔ اور قول ہے کہ بیت المقدس سے آپ آٹھ میل چلی گئی تھیں اس بستی کا نام بیت اللحم تھا۔
معراج کے واقعہ کے بیان میں پہلے ایک حدیث گزری ہے جس میں ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کی جگہ بھی بیت اللحم تھا ۔ [سنن نسائی:451،قال الشيخ الألباني:منکر] «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔
مشہور بات بھی یہی ہے اور نصرانیوں کا تو اس پر اتفاق ہے اور اس حدیث میں بھی ہے اگر یہ صحیح ہو۔ اس وقت آپ موت کی تمنا کرنے لگیں کیونکہ دین کے فتنے کے وقت یہ تمنا بھی جائز ہے۔ جانتی تھیں کہ کوئی انہیں سچا نہ کہے گا۔ ان کے بیان کردہ واقعہ کو ہر شخص گھڑنت سمجھے گا۔ دنیا آپ کو پریشان کر دے گی اور عبادت و اطمینان میں خلل پڑے گا۔ ہر شخص برائی سے یاد کرے گا اور لوگوں پر برا اثر پڑے گا۔ تو فرمانے لگیں کاش کہ میں اس حالت سے پہلے ہی اٹھالی جاتی بلکہ کاش کہ میں پیدا ہی نہ کی جاتی۔ اس قدر شرم و حیاء دامن گیر ہوئی کہ آپ نے اس تکلیف پر موت کو ترجیح دی اور تمنا کی کہ کاش میں کھوئی ہوئی اور یاد سے اتری ہوئی چیز ہو جاتی کہ نہ کوئی یاد کرے نہ ڈھونڈے نہ ذکر کرے۔
احادیث میں موت مانگنے کی ممانعت وارد ہے۔ ہم نے ان روایتوں کو آیت «تَوَفَّنِيْ مُسْلِمًا وَّاَلْحِقْنِيْ بالصّٰلِحِيْنَ»[12-یوسف:101] ، کی تفسیر میں بیان کر دیا ہے۔