اس آیت سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ انسان کی نیکیوں کی وجہ سے اس کے بال بچے بھی دنیا اور آخرت میں اللہ کی مہربانی حاصل کر لیتے ہیں۔ جیسے قرآن و حدیث میں صراحتا مذکور ہے دیکھئیے آیت میں ان کی کوئی صلاحیت بیان نہیں ہوئی ہاں ان کے والد کی نیک بختی اور نیک عملی بیان ہوئی ہے۔ اور پہلے گزر چکا ہے یہ باپ جس کی نیکی کی وجہ سے ان کی حفاظت ہوئی یہ ان بچوں کا ساتواں دادا تھا «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔ آیت میں ہے تیرے رب نے چاہا، یہ اسناد اللہ کی طرف اس لیے کی گئی ہے کہ جوانی تک پہنچانے پر بجز اس کے اور کوئی قادر نہیں۔ دیکھئیے بچے کی بارے میں اور کشتی کے بارے میں ارادے کی نسبت اپنی طرف کی گئی ہے «فَأَرَدْنَا» اور «فَأَرَدتُّ» کے لفظ ہیں «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔ پھر فرماتے ہیں کہ دراصل یہ تینوں باتیں جنہیں تم نے خطرناک سمجھا سراسر رحمت تھیں۔ کشتی والوں کو گو قدرے نقصان ہوا لیکن اس سے پوری کشتی بچ گئی۔ بچے کے مرنے کی وجہ سے گو ماں باپ کو رنج ہوا لیکن ہمیشہ کے رنج اور عذاب الٰہی سے بچ گئے اور پھر نیک بدلہ ہاتھوں ہاتھ مل گیا۔ اور یہاں اس نیک شخص کی اولاد کا بھلا ہوا۔ یہ کام میں نے اپنی خوشی سے نہیں کئے بلکہ احکام الٰہی بجا لایا۔ اس سے بعض لوگوں نے خضر علیہ السلام کی نبوت پر استدلال کیا ہے اور پوری بحث پہلے گزر چکی ہے اور کچھ لوگ کہتے ہیں یہ رسول تھے۔ ایک قول ہے کہ یہ فرشتے تھے لیکن اکثر بزرگوں کا فرمان ہے کہ یہ ایک ولی اللہ تھے۔
امام ابن قتیبہ رحمہ اللہ نے معارف میں لکھا ہے کہ ان کا نام بلیابن ملکان بن خالغ بن عاجر بن شانح بن ارفحشد بن سام بن نوح علیہ السلام تھا۔ ان کی کنیت ابو العباس ہے، لقب خضر ہے۔ امام نووی رحمہ اللہ نے تہذیب الاسماء میں لکھا ہے کہ یہ شہزادے تھے۔ یہ اور ابن صلاح تو قائل ہیں کہ وہ اب تک زندہ ہیں اور قیامت تک زندہ رہیں گے۔ گو بعض احادیث میں بھی یہ ذکر آیا ہے لیکن ان میں سے ایک بھی صحیح نہیں۔ سب سے زیادہ مشہور حدیث اس بارے میں وہ ہے جس میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعزیت کے لیے آپ تشریف لائے تھے [تفسیر قرطبی،4189:ضعیف و باطل] ۔ لیکن اس کی سند بھی ضعیف ہے۔ اکثر محدثین وغیرہ اس کے برخلاف ہیں اور وہ حیات خضر کے قائل نہیں۔ ان کی ایک دلیل آیت قرآنی «وَمَا جَعَلْنَا لِبَشَرٍ مِّنْ قَبْلِكَ الْخُلْدَ اَفَا۟ىِٕنْ مِّتَّ فَهُمُ الْخٰلِدُوْنَ»[ 21- الأنبياء: 34 ] ہے یعنی تجھ سے پہلے بھی ہم نے کسی کو ہمیشہ کی زندگی نہیں دی۔ اور دلیل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا غزوہ بدر میں یہ فرمانا ہے کہ الٰہی اگر میری یہ جماعت ہلاک ہو گئی تو زمین میں تیری عبادت پھر نہ کی جائے گی۔ [صحیح مسلم:1763]
ایک دلیل یہ بھی ہے کہ اگر خضر رحمۃ اللہ علیہ زندہ ہوتے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ضرور حاضر ہوتے اور اسلام قبول کرتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں ملتے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تمام جن و انس کی طرف اللہ کے رسول بنا کر بھیجے گئے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو یہاں تک فرمایا ہے کہ اگر موسیٰ علیہ السلام اور عیسیٰ علیہ السلام زندہ [ زمین پر ] ہوتے تو انہیں بھی بجز میری تابعداری کے چارہ نہ تھا۔ [حاشیة العقیدہ الطحاویة، ارواء الغلیل:1589،منکر] آپ اپنی وفات سے کچھ دن پہلے فرماتے ہیں کہ آج جو زمین پر ہیں، ان میں سے ایک بھی آج سے لے کر سو سال تک باقی نہیں رہے گا۔ [صحیح بخاری:116] ان کے علاوہ اور بھی بہت سے دلائل ہیں۔
صحیح البخاری میں ہے کہ خضر کو خضر اس لیے کہا گیا کہ وہ سفید رنگ سوکھی گھاس پر بیٹھ گئے تھے یہاں تک کہ اس کے نیچے سے سبزہ اگ آیا۔ [صحیح بخاری:3402] اور ممکن ہے کہ اس سے مراد یہ ہو کہ آپ خشک زمین پر بیٹھ گئے تھے اور پھر وہ لہلہانے لگی۔
الغرض خضر علیہ السلام نے موسیٰ علیہ السلام کے سامنے جب یہ گتھی سلجھا دی اور ان کاموں کی اصل حکمت بیان کر دی تو فرمایا کہ یہ تھے وہ راز جن کے آشکارا کرنے کے لیے آپ جلدی کر رہے تھے۔ چونکہ پہلے شوق و مشقت زیادہ تھی، اس لیے لفظ «لَمْ تَسْطِع» کہا اور اب بیان کر دینے کے بعد وہ بات نہ رہی اس لیے لفظ «لَمْ تَسْطِع» کہا۔ یہی صفت آیت «فَمَا اسْطَاعُوْٓا اَنْ يَّظْهَرُوْهُ وَمَا اسْتَطَاعُوْا لَهٗ نَقْبًا»[ 18- الكهف: 97 ] میں ہے یعنی یاجوج ماجوج نہ اس دیوار پر چڑھ سکے اور نہ اس میں کوئی سوراخ کر سکے۔ پس چڑھنے میں تکلیف بہ نسبت سوراخ کرنے کے کم ہے اس لیے ثقیل کا مقابلہ ثقیل سے اور خفیف کا مقابلہ خفیف سے کیا گیا اور لفظی اور معنوی مناسبت قائم کر دی۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔ موسیٰ علیہ السلام کے ساتھی کا ذکر ابتداء قصہ میں تو تھا لیکن پھر نہیں، اس لیے کہ مقصود صرف موسیٰ علیہ السلام اور خضر علیہ السلام کا واقعہ بیان کرنا تھا۔ حدیثوں میں ہے کہ آپ کے یہ ساتھی یو شع بن نون علیہ السلام تھے۔ یہی موسیٰ علیہ السلام کے بعد بنی اسرائیل کے والی بنائے گئے تھے۔ ایک روایت میں ہے کہ انہوں نے آب حیات پی لیا تھا اس لیے انہیں کشتی میں بٹھا کر بیچ سمندر کے چھوڑ دیا، وہ کشتی یونہی ہمیشہ تک موجوں کے تلاطم میں رہے گی۔ یہ بالکل ضعیف ہے کیونکہ اس واقعہ کے راویوں میں ایک میں تو حسن ہے جو متروک ہے، دوسرا اس کا باپ ہے جو غیر معروف ہے۔ یہ واقعہ سندا ٹھیک نہیں۔