تفسير ابن كثير



آمین باآواز بلند ٭٭

جہری نمازوں میں مقتدی اونچی آواز سے آمین کہے یا نہ کہے، اس میں ہمارے ساتھیوں کا اختلاف ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ اگر امام آمین کہنی بھول گیا ہو تو مقتدی باآواز بلند آمین کہیں۔ اگر امام نے خود اونچی آواز سے آمین کہی ہو تو نیا قول یہ ہے کہ مقتدی باآواز بلند نہ کہیں۔ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا یہی مذہب ہے۔ اور ایک روایت میں امام مالک رحمہ اللہ سے بھی مروی ہے اس لیے کہ نماز کے اور اذکار کی طرح یہ بھی ایک ذکر ہے تو نہ وہ صرف بلند آواز سے پڑھے جاتے ہیں نہ یہ بلند آواز سے پڑھا جائے۔

لیکن پہلا قول یہ ہے کہ آمین بلند آواز سے کہی جائے۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا بھی یہی مذہب ہے اور امام مالک رحمہ اللہ کا بھی دوسری روایت کے اعتبار سے یہی مذہب ہے اور اس کی دلیل وہی حدیث ہے جو پہلے بیان ہو چکی کہ آمین کی آواز سے مسجد گونج اٹھتی تھی۔

ہمارے یہاں پر ایک تیسرا قول بھی ہے کہ اگر مسجد چھوٹی ہو تو مقتدی باآواز بلند آمین نہ کہیں اس لیے کہ وہ امام کی قرأت سنتے ہیں اور اگر بڑی ہو تو اونچی آواز سے آمین کہیں تاکہ مسجد کے کونے کونے میں آمین پہنچ جائے۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ» (‏‏‏‏صحیح مسئلہ یہ ہے کہ جن نمازوں میں اونچی آواز سے قرأت پڑھی جاتی ہے ان میں اونچی آواز سے آمین کہنی چاہیئے۔ خواہ مقتدی ہو خواہ امام ہو، خواہ منفرد، مترجم)‏‏‏‏‏‏‏‏

مسند احمد میں صرف سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس یہودیوں کا ذکر ہوا تو آپ نے فرمایا کہ ہماری تین چیزوں پر یہودیوں کو اتنا بڑا حسد ہے کہ کسی اور چیز پر نہیں۔ ایک تو جمعہ پر کہ اللہ نے ہمیں اس کی ہدایت کی اور یہ بہک گئے دوسرے قبلہ، تیسرے ہمارا امام کے پیچھے آمین کہنا ۔ [سلسلة احادیث صحيحہ البانی:691،صحيح بالشواھد] ‏‏‏‏

ابن ماجہ کی حدیث میں یوں ہے کہ یہودیوں کو سلام پر اور آمین پر جتنی چڑ ہے اتنی کسی اور چیز پر نہیں ۔ [سنن ابن ماجہ:856،قال الشيخ الألباني:صحيح] ‏‏‏‏

اور سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہارا جس قدر حسد یہودی آمین پر کرتے ہیں اس قدر حسد اور امر پر نہیں کرتے تم بھی آمین بکثرت کہا کرو ۔ [سنن ابن ماجہ:857،قال الشيخ الألباني:ضعيف جدا] ‏‏‏‏ اس کی اسناد میں طلحہ بن عمرو راوی ضعیف ہیں۔

ابن مردویہ میں بروایت سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ مروی ہے کہ آپ نے فرمایا آمین اللہ تعالیٰ کی مہر ہے اپنے مومن بندوں پر ۔ [سلسلة احادیث ضعیفہ البانی:1487،ضعيف] ‏‏‏‏

سیدنا انس رضی اللہ عنہ والی حدیث میں ہے کہ نماز میں آمین کہنی اور دعا پر آمین کہنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے مجھے عطا کی گئی ہے جو مجھ سے پہلے کسی کو نہیں دی گئی۔ ہاں اتنا ہے کہ موسیٰ علیہ السلام کی ایک خاص دعا پر ہارون علیہ السلام آمین کہتے تھے۔ تم اپنی دعاؤں کو آمین پر ختم کیا کرو۔ اللہ تعالیٰ انہیں تمہارے حق میں قبول فرمایا کرے گا ۔ [ابن خزیمہ:1586:ضعیف] ‏‏‏‏

اس حدیث کو پیش نظر رکھ کر قرآن کریم کے ان الفاظ کو دیکھئے جن میں موسیٰ علیہ السلام کی دعا: «رَبَّنَا إِنَّكَ آتَيْتَ فِرْعَوْنَ وَمَلَأَهُ زِينَةً وَأَمْوَالًا فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا رَبَّنَا لِيُضِلُّوا عَنْ سَبِيلِكَ رَبَّنَا اطْمِسْ عَلَىٰ أَمْوَالِهِمْ وَاشْدُدْ عَلَىٰ قُلُوبِهِمْ فَلَا يُؤْمِنُوا حَتَّىٰ يَرَوُا الْعَذَابَ الْأَلِيمَ» [10-يونس:88] ‏‏‏‏ ہے الخ یعنی ”الہٰی تو نے فرعون اور فرعونیوں کو دنیا کی زینت اور مال دنیا زندگانی میں عطا فرمایا ہے جس سے وہ تیری راہ سے دوسروں کو بہکا رہے ہیں۔ اللہ ان کے مال برباد کر اور ان کے دل سخت کر، جب تک درد ناک عذاب نہ دیکھ لیں یہ ایمان نہ لائیں“۔

موسیٰ علیہ السلام کی اس دعا کی قبولت کا اعلان ان الفاظ میں ہوتا ہے: «قَدْ أُجِيبَتْ دَعْوَتُكُمَا فَاسْتَقِيمَا وَلَا تَتَّبِعَانِّ سَبِيلَ الَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ» [10-يونس:89] ‏‏‏‏ الخ یعنی ”تم دونوں کی دعا قبول کی گئی، تم مضبوط رہو اور بےعلموں کی راہ نہ جاؤ“۔ دعا صرف موسیٰ علیہ السلام کرتے تھے اور ہارون علیہ السلام صرف آمین کہتے تھے لیکن قرآن نے دعا کی نسبت دونوں کی طرف کی۔

اس سے بعض لوگوں نے استدلال کیا ہے کہ جو شخص کسی دعا پر آمین کہے وہ گویا خود وہ دعا کر رہا ہے۔ اب اس استدلال کو سامنے رکھ کر وہ قیاس کرتے ہیں کہ مقتدی قرأت نہ کرے، اس لیے کہ اس کا سورۃ فاتحہ کے بعد آمین کہنا پڑھنے کے قائم مقام ہے اور اس حدیث کو بھی دلیل میں لاتے ہیں کہ جس کا امام ہو تو اس کے امام کی قرأت اس کی قرأت ہے۔ [ مسند احمد ] ‏‏‏‏

سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کہا کرتے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آمین میں مجھ سے سبقت نہ کیا کیجئے اس کھینچا تانی سے مقتدی پر جہری نمازوں میں «الْحَمْدُ» کا نہ پڑھنا ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ» (‏‏‏‏یہ یاد رہے کہ اس کی مفصل بحث پہلے گزر چکی ہے)‏‏‏‏‏‏‏‏

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب امام «غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ» کہہ کر آمین کہتا ہے آسمان والوں کی آمین زمین والوں کی آمین سے مل جاتی ہے تو اللہ تعالیٰ بندے کے تمام پہلے گناہ معاف فرما دیتا ہے۔ آمین نہ کہنے والے کی مثال ایسی ہے جیسے ایک شخص ایک قوم کے ساتھ مل کر غزوہ کرے، غالب آئے، مال غنیمت جمع کرے، اب قرعہ ڈال کر حصہ لینے لگے تو اس شخص کے نام قرعہ نکلے ہی نہیں اور کوئی حصہ نہ ملے وہ کہے یہ کیوں؟ تو جواب ملے تیرے آمین نہ کہنے کی وجہ سے ۔ [ابویعلی فی مسندہ:6411:ضعیف] ‏‏‏‏



https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.