حضرت موسیٰ علیہ السلام سے ذکر کیا گیا کہ اللہ کا ایک بندہ دو دریا ملنے کی جگہ ہے، اس کے پاس وہ علم ہے جو تمہیں حاصل نہیں، آپ علیہ السلام نے اسی وقت ان سے ملاقات کرنے کی ٹھان لی۔ اب اپنے ساتھی سے فرماتے ہیں کہ میں تو پہنچے بغیر دم نہ لوں گا۔ کہتے ہیں، یہ دو سمندر ایک تو بحیرہ فارس مشرقی اور دوسرا بحیرہ روم مغربی ہے۔ یہ جگہ طنجہ کے پاس مغرب کے شہروں کے آخر میں ہے «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔ تو فرماتے ہیں کہ گو مجھے قرنوں تک چلنا پڑے کوئی حرج نہیں۔ کہتے ہیں کہ قیس کے لغت میں برس کو حقب کہتے ہیں۔ سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، حقب سے مراد اسی برس ہیں۔ حضرت مجاہد رحمہ اللہ ستر برس کہتے ہیں۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما زمانہ بتلاتے ہیں۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام کو حکم ملا تھا کہ اپنے ساتھ نمک چڑھی ہوئی ایک مچھلی لیں، جہاں وہ گم ہو جائے وہیں ہمارا بندہ ملے گا۔ یہ دونوں مچھلی کو ساتھ لیے چلے مجمع البحرین میں پہنچ گئے، وہاں نہر حیات تھی وہیں دونوں لیٹ گئے۔ اس نہر کے پانی کے چھینٹے مچھلی پر پڑے، مچھلی ہلنے جلنے لگ گئی۔ آپ علیہ السلام کے ساتھی یوشع علیہ السلام کی زنبیل میں یہ مچھلی رکھی ہوئی تھی اور وہ سمندر کے کنارے تھا۔ مچھلی نے سمندر کے اندر کود جانے کے لیے جست لگائی اور یوشع کی آنکھ کھل گئی۔ مچھلی ان کے دیکھتے ہوئی پانی میں گئی اور پانی میں سیدھا سوراخ ہوتا چلا گیا۔ پس جس طرح زمین میں سوراخ اور سرنگ بن جاتی ہے، اسی طرح پانی میں جہاں سے وہ گئی سوراخ ہو گیا، ادھر ادھر پانی کھڑا ہو گیا اور وہ سوراخ بالکل کھلا ہوا رہا۔ پتھر کی طرح پانی میں چھید ہو گیا، جہاں جس پانی کو لگتی ہوئی وہ مچھلی گئی، وہاں کا وہ پانی پتھر جیسا ہو گیا اور وہ سوراخ بنتا چلا گیا۔
حضرت محمد بن اسحاق رحمہ اللہ مرفوعاً لائے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کا بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ پانی اس طرح ابتداء دنیا سے نہیں جما، سوائے اس مچھلی کے چلے جانے کی جگہ کے اردگرد کے پانی کے۔ یہ نشان مثل سوراخ زمین کے برابر موسیٰ علیہ السلام کے واپس پہنچنے تک باقی ہی رہے۔ اس نشان کو دیکھتے ہی موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا، اسی کی تلاش میں تو ہم تھے۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:23185:ضعیف] جب مچھلی کو بھول کر یہ دونوں آگے بڑھے۔ یہاں یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ ایک کا کام دونوں ساتھیوں کی طرف منسوب ہوا ہے۔ بھولنے والے صرف یوشع علیہ السلام تھے۔ جیسے فرمان ہے «يَخْرُجُ مِنْهُمَا اللُّؤْلُؤُ وَالْمَرْجَانُ»[ 55-الرحمن: 22 ] یعنی ان دونوں سمندروں میں سے موتی اور مونگے نکلتے ہیں۔ حالانکہ دو قولوں میں سے ایک یہ ہے کہ لولو اور مرجان صرف کھاری پانی میں سے نکلتے ہیں۔ جب وہاں سے ایک مرحلہ اور طے کر گئے تو موسیٰ علیہ السلام نے اپنے ساتھی سے ناشتہ طلب کیا اور سفر کی تکلیف بھی بیان کی، یہ تکلیف مقصود سے آگے نکل آنے کے بعد ہوئی۔ اس پر آپ کے ساتھی کو مچھلی کا چلا جانا یاد آیا اور کہا جس چٹان کے پاس ہم ٹھہرے تھے، اس وقت میں مچھلی بھول گیا اور آپ سے ذکر کرنا بھی شیطان نے یاد سے ہٹا دیا۔
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہما کی قرأت «اَنْ اَذْکُرَ لَہُ» ہے۔ فرماتے ہیں کہ اس مچھلی نے تو عجیب و غریب طور پر پانی میں اپنی راہ پکڑی۔ اسی وقت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا لو اور سنو اسی جگہ کی تلاش میں ہم تھے۔ تو وہ دونوں اپنے اسی راستے پر اپنے نشانات قدم کے کھوج پر واپس لوٹے۔ وہاں ہمارے بندوں میں سے ایک بندے کو پایا جسے ہم نے اپنے پاس کی رحمت اور اپنے پاس کا علم عطا فرما رکھا تھا۔ یہ خضر علیہ السلام ہیں۔
صحیح بخاری میں ہے کہ حضرت سعید بن جبیر رحمہ اللہ نے سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے کہا کہ نوف کا خیال ہے کہ خضر علیہ السلام سے ملنے والے موسیٰ بنی اسرائیل کے موسیٰ نہ تھے۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا، وہ دشمن رب جھوٹا ہے، ہم سے سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہما نے فرمایا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے انہوں نے سنا کہ موسیٰ علیہ السلام کھڑے ہو کر بنی اسرائیل میں خطبہ کر رہے تھے جو آپ سے سوال ہوا کہ سب سے بڑا عالم کون ہے؟ آپ علیہ السلام نے جواب دیا کہ میں، تو چونکہ آپ علیہ السلام نے اس کے جواب میں یہ نہ فرمایا کہ اللہ جانے، اس لیے رب کو یہ کلمہ ناپسند آیا۔ اسی وقت وحی آئی کہ ہاں مجمع البحرین میں ہمارا ایک بندہ ہے جو تجھ سے بھی زیادہ عالم ہے۔ اس پر موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا پھر پروردگار میں اس تک کیسے پہنچ سکتا ہوں؟ حکم ہوا کہ اپنے ساتھ ایک مچھلی رکھ لو، اسے توشے دان میں ڈال لو، جہاں وہ مچھلی گم ہو جائے وہیں وہ مل جائیں گے۔ تو آپعلیہ السلام اپنے ساتھ اپنے ساتھی یوشع بن نون علیہ السلام کو لے کر چلے، پتھر کے پاس پہنچ کر اپنے سر اس پر رکھ کر دو گھڑی سو رہے۔ مچھلی اس توشے دان میں تڑپی اور کود کر اس سے نکل گئی، سمندر میں ایسی گئی جیسے کوئی سرنگ لگا کر زمین میں اتر گیا ہو۔ پانی کا چلنا بہنا اللہ تعالیٰ نے موقوف کر دیا اور طاق کی طرح وہ سوراخ باقی رہ گیا۔ موسیٰ علیہ السلام جب جا گے تو آپ کے ساتھی یہ ذکر آپ سے بھول گئے، اسی وقت وہاں سے چل پڑے۔ دن پورا ہونے کے بعد رات بھر چلتے رہے، صبح موسیٰ علیہ السلام کو تھکان اور بھوک محسوس ہوئی۔ اللہ نے جہاں جانے کا حکم دیا تھا جب تک وہاں سے آگے نہ نکل گئے، تھکان کا نام تک نہ تھا۔ اب اپنے ساتھی سے کھانا مانگا اور تکلیف بیان کی۔
اس وقت آپ کے ساتھی نے فرمایا کہ پتھر کے پاس جب ہم نے آرام لیا تھا، وہیں اسی وقت مچھلی تو میں بھول گیا اور اس کے ذکر کو بھی شیطان نے بھلا دیا اور اس مچھلی نے تو سمندر میں عجیب طور پر اپنی راہ نکال لی۔ مچھلی کے لیے سرنگ بن گئی اور ان کے لیے حیرت کا باعث بن گیا۔ موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا اسی کی تو تلاش تھی۔ چنانچہ اپنے نشان قدم دیکھتے ہوئے دونوں واپس ہوئے، اسی پتھر کے پاس پہنچے دیکھا کہ ایک صاحب کپڑوں میں لپٹے ہوئے بیٹھے ہیں۔ آپ علیہ السلام نے سلام کیا، اس نے کہا تعجب ہے آپ کی سر زمین میں یہ سلام کہاں؟ آپ علیہ السلام نے فرمایا میں موسیٰ ہوں۔ انہوں نے پوچھا کیا بنی اسرائیل کے موسیٰ؟ آپ علیہ السلام نے فرمایا ہاں اور میں اس لیے آیا ہوں کہ آپ مجھے وہ سکھائیں جو بھلائی آپ کو اللہ کی طرف سے سکھائی گئی ہے۔ آپ نے فرمایا موسیٰ علیہ السلام آپ میرے ساتھ صبر نہیں کر سکتے۔ اس لیے کہ مجھے جو علم ہے وہ آپ علیہ السلام کو نہیں اور آپ کو جو علم ہے وہ مجھے نہیں، اللہ تعالیٰ نے دونوں کو جداگانہ علم عطا فرما رکھا ہے۔ موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا ان شاءاللہ آپ دیکھیں گے کہ میں صبر کروں گا اور آپ کے کسی فرمان کی نافرمانی نہ کروں گا۔ خضر علیہ السلام نے فرمایا اچھا اگر تم میرا ساتھ چاہتے ہو تو مجھ سے خود کسی بات کا سوال نہ کرنا یہاں تک کہ میں آپ تمہیں اس کی بابت خبردار کروں۔
اتنی باتیں طے کر کے دونوں ساتھ چلے، دریا کے کنارے ایک کشتی تھی، ان سے اپنے ساتھ لے جانے کی بات چیت کرنے لگے۔ انہوں نے خضر علیہ السلام کو پہچان لیا اور بغیر کرایہ لیے دونوں کو سوار کر لیا۔ کچھ ہی دور چلے ہوں گے جو موسیٰ علیہ السلام نے دیکھا کہ خضر علیہ السلام چپ چاپ کشتی کے تختے کلہاڑے سے توڑ رہے ہیں۔ موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا یہ کیا؟ ان لوگوں نے تو ہمارے ساتھ احسان کیا بغیر کرایہ لیے کشتی میں سوار کیا اور آپ نے اس کے تختے توڑنے شروع کر دئیے جس سے تمام اہل کشتی ڈوب جائیں، یہ تو بڑا ہی ناخوش گوار کام کرنے لگے۔ اسی وقت خضر علیہ السلام نے فرمایا، دیکھو میں نے تو تم سے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ تم میرے ساتھ صبر نہیں کر سکتے۔ موسیٰ علیہ السلام معذرت کرنے لگے کہ خطا ہو گئی، بھولے سے پوچھ بیٹھا، معاف فرمائیے اور سختی نہ کیجیے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں واقعی یہ پہلی غلطی بھول سے ہی تھی۔ فرماتے ہیں کشتی کے ایک تختے پر ایک چڑیا آ بیٹھی اور سمندر میں چونچ ڈال کر پانی لے کر اڑ گئی، اس وقت خضر علیہ السلام نے موسیٰ علیہ السلام سے فرمایا، میرے اور تیرے علم نے اللہ کے علم میں سے اتنا ہی کم کیا ہے جتنا پانی سے سمندر میں سے اس چڑیا کی چونچ نے کم کیا ہے۔ اب کشتی کنارے لگی اور ساحل پر دونوں چلنے لگے جو خضر علیہ السلام کی نگاہ چند کھیلتے ہوئے بچوں پر پڑی ان میں سے ایک بچے کا سر پکڑ کر خضر علیہ السلام نے اس طرح مروڑ دیا کہ اسی وقت اس کا دم نکل گیا۔ موسیٰ علیہ السلام گھبرا گئے اور فرمانے لگے، بغیر کسی قتل کے اس بچے کو آپ نے ناحق مار ڈالا؟ آپ نے بڑا ہی منکر کام کیا۔ خضر علیہ السلام نے فرمایا دیکھو اسی کو میں نے پہلے ہی سے کہہ دیا تھا کہ تمہاری ہماری نبھ نہیں سکتی، اس وقت خضر علیہ السلام نے پہلے سے زیادہ سختی کی۔ موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا اچھا اب اگر میں کوئی سوال کر بیٹھوں تو بیشک آپ مجھے اپنے ساتھ نہ رکھنا، یقیناً اب آپ معذور ہو گئے۔
چنانچہ پھر دونوں ہمراہ چلے ایک بستی والوں کے پاس پہنچے ان سے کھانا مانگا لیکن انہوں نے ان کی مہمانداری سے صاف انکار کر دیا۔ وہیں ایک دیوار دیکھی جو جھک گئی تھی اور گرنے کے قریب تھی، اسی وقت خضر نے ہاتھ لگا کر اسے ٹھیک اور درست کر دیا۔ موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا خیال تو فرمائیے، ہم یہاں آئے، ان لوگوں سے کھانا طلب کیا، انہوں نے نہ دیا، مہمان نوازی کے خلاف کیا، ان کا یہ کام تھا، آپ ان سے اجرت لے سکتے تھے۔ خضر علیہ السلام نے فرمایا، یہ ہے مجھ میں اور تم میں جدائی۔ اب میں تمہیں ان کاموں کی اصلیت بتلا دوں گا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کاش کہ موسیٰ علیہ السلام صبر سے کام لیتے تو ان دونوں کی اور بھی بہت سی باتیں ہمارے سامنے اللہ تعالیٰ بیان فرماتا۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی قرأت میں «وَکَانُ وَرَاۤئَہُمْ» کے بدلے «وَکَانُ اَمَامَہُمْ» ہے اور «سَّفِينَةِ» کے بعد «صَالِحَةٍ» کا لفظ بھی ہے اور «وَاَمَّا الْغُلَامُ» کے بعد «فَکَانُ کَافِرَا» کے لفظ بھی ہیں۔ [صحیح بخاری:4725]
اور سند سے بھی یہ حدیث مروی ہے، اس میں ہے کہ اس پتھر کے پاس موسیٰ علیہ السلام رک گئے، وہیں ایک چشمہ تھا جس کا نام نہر حیات تھا، اس کا پانی جس چیز کو لگ جاتا وہ زندہ ہو جاتی تھی۔ اس میں چڑیا کے پانی لینے کے بعد خضر علیہ السلام کا یہ قول منقول ہے کہ میرا اور تیرا اور تمام مخلوق کا علم اللہ کے علم میں اتنا ہی ہے جتنا اس چڑیا کی چونچ کا پانی اس سمندر کے مقابلے میں، الخ۔ [صحیح بخاری:4727]
صحیح بخاری شریف کی ایک اور حدیث میں ہے حضرت سعید بن جبیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے گھر میں ان کے پاس تھا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ جس کو جو سوال کرنا ہو کر لے، میں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ مجھے آپ رضی اللہ عنہما پر فدا کرے، کوفے میں ایک واعظ ہیں جن کا نام نوف ہے پھر پوری حدیث بیان کی جیسا کہ اوپر گزری۔ اس میں ہے کہ موسیٰ علیہ السلام کے اس خطبہ سے آنکھوں سے آنسو بہ نکلے اور دل نرم پڑ گئے تھے، جب آپ جانے لگے تو ایک شخص آپ کے پاس پہنچا اور اس نے سوال کیا کہ روئے زمین پر آپ سے زیادہ علم والا بھی کوئی ہے؟ آپ علیہ السلام نے فرمایا نہیں، اس پر اللہ تعالیٰ نے آپ کو عتاب کیا کیونکہ انہوں نے اللہ کی طرف علم کو نہ لوٹایا۔ اس میں ہے کہ جب موسیٰ علیہ السلام نے نشان طلب کیا تو ارشاد ہوا کہ ایک مری ہوئی مچھلی اپنے ساتھ رکھ لو، جس جگہ اس میں روح پڑ جائے، وہیں پر آپ کی اس شخص سے ملاقات ہو گئی۔ چنانچہ آپ نے مچھلی لی زنبیل میں رکھ لی اور اپنے ساتھی سے کہا، آپ کا صرف اتنا ہی کام ہے کہ جہاں یہ مچھلی آپ کے پاس سے چلی جائے، وہاں آپ مجھے خبر کر دینا۔ انہوں نے کہا یہ تو بالکل آسان سی بات ہے۔ ان کا نام یوشع بن نون تھا۔ لفتہ سے یہی مراد ہے۔
یہ دونوں بزرگ تر جگہ میں ایک درخت تلے تھے موسیٰ علیہ السلام کو نیند آ گئی تھی اور یوشع علیہ السلام جاگ رہے تھے جو مچھلی کود گئی۔ انہوں نے خیال کیا کہ جگانا تو ٹھیک نہیں، جب آنکھ کھلے گی ذکر کر دوں گا۔ اس میں یہ بھی ہے کہ پانی میں جانے کے وقت جو سوراخ ہو گیا تھا، اسے روای حدیث عمرو نے اپنے انگوٹھے اور اس کے پاس کی دونوں انگلیوں کا حلقہ کر کے دکھایا کہ اس طرح کا تھا جیسے پتھر میں ہوتا ہے۔ واپسی پر خضر سمندر کے کنارے سبز گدی بچھائے ملے، ایک چادر میں لپٹے ہوئے تھے، اس کا ایک سرا تو دونوں پیروں کے نیچے رکھا ہوا تھا اور دوسرا کنارہ سر تلے تھا۔ موسیٰ علیہ السلام کے سلام پر آپعلیہ السلام نے منہ کھولا۔ اس میں یہ بھی ہے کہ خضر علیہ السلام نے فرمایا کہ آپ علیہ السلام کے ہاتھ میں توراۃ موجود ہے، وحی آسمان سے آ رہی ہے، کیا یہ بس نہیں؟ اور میرا علم آپ کے لائق بھی نہیں اور نہ میں آپ کے علم کے قابل ہوں۔ اس میں ہے کہ کشتی کا تختہ توڑ کر آپ نے ایک تانت سے باندھ دیا تھا۔ پہلی دفعہ کا آپ کا سوال تو بھولے سے ہی تھا، دوسری مربتہ کا بطور شرط کے تھا، ہاں تیسری بار کا سوال قصداً علیحدگی کی وجہ سے تھا۔ اس میں ہے کہ لڑکوں میں ایک لڑکا تھا کافر ہوشیار، اسے خضر نے لٹا کر چھری سے ذبح کر دیا۔ ایک قرأت میں زاکیتہ مسلمۃ بھی ہے۔ ورائہم کی قرأت امامہم بھی ہے۔ اس ظالم بادشاہ کا نام اس میں ہدد بن بدر ہے اور جس بچے کو قتل کیا گیا تھا اس کا نام جیسور تھا۔ کہتے ہیں کہ اس لڑکے کے بدلے ان کے ہاں ایک لڑکی ہوئی۔
ایک روایت میں ہے کہ موسیٰ علیہ السلام خطبہ کر رہے تھے اور فرمایا کہ اللہ کو اور اس کے امر کو مجھ سے زیادہ کوئی نہیں جانتا۔ الخ۔ یہ نوف کعب رضی اللہ عنہ کی بیوی کے لڑکے تھے اور ان کا قول تھا کہ جس موسیٰ کا ان آیتوں میں ذکر ہے یہ موسیٰ بن میشا تھے۔ اور روایت میں ہے کہ موسیٰ علیہ السلام نے جناب باری تعالیٰ سے سوال کیا کہ اے اللہ اگر تیرے بندوں میں مجھ سے بڑا عالم کوئی ہو تو مجھے آگاہ فرما، اس میں ہے کہ نمک چڑھی ہوئی مچھلی آپ نے اپنے ساتھ رکھی تھی۔ اس میں یہ بھی ہے کہ خضر علیہ السلام نے فرمایا تم یہاں کیوں آئے؟ آپ علیہ السلام کو تو ابھی بنی اسرائیل میں ہی مشغول کار رہنا ہے۔ اس میں ہے کہ چھپی ہوئی باتیں خضر علیہ السلام کو معلوم کرائی جاتی تھیں تو آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ تم میرے ساتھ ٹھہر نہیں سکتے کیونکہ آپ تو ظاہر کو دیکھ کر فیصلہ کریں گے اور مجھے راز پر اطلاع ہوتی ہے۔ چنانچہ شرط ہو گئی کہ گو آپ کیسا ہی خلاف دیکھیں لیکن لب نہ ہلائیں جب تک کہ خضر خود نہ بتلائیں۔ کہتے ہیں کہ یہ کشتی تمام کشتیوں سے مضبوط عمدہ اور اچھی تھی، وہ بچہ ایک بے مثل بچہ تھا بڑا حسین بڑا ہوشیار بڑا ہی طرار، خضر نے اسے پکڑ کر پتھر سے اس کا سر کچل کر اسے مار ڈالا۔ موسیٰ خوف الٰہی سے کانپ اٹھے کہ ننھا سا پیارا بےگناہ بچہ اس بیدردی سے بغیر کسی سبب کے خضر نے جان سے مار ڈالا۔ دیوار گرتی ہوئی دیکھ کر ٹھہر گئے، پہلے تو اسے باقاعدہ گرایا اور پھر بہ آرام چننے بیٹھے۔ موسیٰ علیہ السلام اکتا گئے کہ بیٹھے بٹھائے اچھا دھندا لے بیٹھے۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں اس دیوار کے نیچے کا خزانہ صرف علم تھا۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:23209:ضعیف]
اور روایت میں ہے کہ جب موسیٰ علیہ السلام اور آپ کی قوم مصر پر غالب آ گئی اور یہاں آ کر وہ با آرام رہنے سہنے لگے تو حکم الٰہی ہوا کہ انہیں اللہ کے احسانات یاد دلاؤ۔ آپ خطبے کے لیے کھڑے ہوئے اور اللہ کے احسانات بیان کرنے لگے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں یہ یہ نعمتیں عطا فرمائیں، آل فرعون سے اس نے تمہیں نجات دی، تمہارے دشمنوں کو غارت اور غرق کر دیا، پھر تمہیں ان کی زمین کا مالک کر دیا، تمہارے نبی سے باتیں کیں، اسے اپنے لیے پسند فرما لیا، اس پر اپنی محبت ڈال دی، تمہاری تمام حاجتیں پوری کیں، تمہارے نبی تمام زمین والوں سے افضل ہیں، اس نے تمہیں تورات عطا فرمائی۔ الغرض پورے زوروں سے اللہ کی بےشمار اور ان گنت نعمتیں انہیں یاد دلائیں۔ اس پر ایک بنی اسرائیلی نے کہا، فی الواقع بات یہی ہے اے نبی اللہ کیا زمین پر آپ سے زیادہ علم والا بھی کوئی ہے؟ آپ نے بےساختہ فرمایا کہ نہیں ہے۔ اسی وقت جناب باری تعالیٰ نے جبرائیل علیہ السلام کو بھیجا کہ ان سے کہو کہ تمہیں کیا معلوم کہ میں اپنا علم کہاں کہاں رکھتا ہوں؟ بیشک سمندر کے کنارے پر ایک شخص ہے جو تجھ سے بھی زیادہ عالم ہے۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں، اس سے مراد خضر علیہ السلام ہیں۔
پس موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے سوال کیا کہ ان کو میں دیکھ لوں۔ وحی ہوئی کہ اچھا سمندر کے کنارے جاؤ، وہاں تمہیں ایک مچھلی ملے گی، اسے لے لو اور اسے اپنے ساتھی کو سونپ دو۔ پھر سمندر کے کنارے چل دو جہاں تو مچھلی کو بھول جائے اور وہ تجھ سے گم ہو جائے، وہیں تو میرے اس نیک بندے کو پائے گا۔ موسیٰ علیہ السلام جب چلتے چلتے تھک گئے تو اپنے ساتھی سے جو ان کا غلام تھا، مچھلی کے بارے میں سوال کیا، اس نے جواب دیا کہ جس پتھر کے پاس ہم ٹھہرے تھے، وہیں میں مچھلی کو بھول گیا اور آپ سے ذکر کرنا شیطان نے بالکل بھلا دیا، میں نے دیکھا کہ مچھلی تو گویا سرنگ بناتی ہوئی دریا میں جا رہی ہے۔ موسیٰ علیہ السلام کو یہ سن کر بڑا ہی تعجب ہوا، جب لوٹ کر وہاں آئے تو دیکھا کہ مچھلی نے پانی میں جانا شروع کیا ہے۔ موسیٰ علیہ السلام بھی اپنی لکڑی سے پانی کو چیرتے ہوئے اس کے پیچھے ہو لیے۔ مچھلی جہاں سے گزرتی تھی، اس کے دونوں طرف کا پانی پتھر بن جاتا تھا، اس سے بھی اللہ کے نبی سخت متعجب ہوئے۔ اب مچھلی ایک جزیرے میں آپ کو لے گئی الخ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما اور حر بن قیس میں اختلاف تھا کہ موسیٰ علیہ السلام کے یہ صاحب کون تھے۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کا فرمان تھا کہ یہ خضر تھے۔ اسی وقت ان کے پاس سے سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہما گزرے، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے انہیں بلا کر اپنا اختلاف بیان کیا۔ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہوئی وہ حدیث بیان کی جو تقریباً اوپر گزر چکی ہے۔ اس میں سائل کے سوال کے الفاظ یہ ہیں کہ کیا آپ اس شخص کا ہونا بھی جانتے ہیں جو آپ سے زیادہ علم والا ہو؟ [صحیح مسلم:2380]