فرمان ہے کہ اوپر جن منکروں کو جس سزا کا ذکر ہوا ہے وہ اسی کے قابل تھے، وہ ہماری دلیلوں کو جھوٹ سمجھتے تھے اور قیامت کے قائل ہی نہ تھے اور صاف کہتے تھے کہ بوسیدہ ہڈیاں ہو جانے کے بعد، مٹی کے ریزوں سے مل جانے کے بعد، ہلاک اور برباد ہو چکنے کے بعد کا دوبارہ جی اٹھنا تو عقل کے باہر ہے۔
پس ان کے جواب میں قرآن نے اس کی ایک دلیل پیش کی کہ «لَخَلْقُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ أَكْبَرُ مِنْ خَلْقِ النَّاسِ وَلَـٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ»[40-غافر:57] ” اس زبردست قدرت کے مالک نے آسمان و زمین کو بغیر کسی چیز کے اول بار بلا نمونہ پیدا کیا، جس کی قدرت ان بلند و بالا، وسیع اور سخت مخلوق کی ابتدائی پیدائش سے عاجز نہیں۔ کیا وہ تمہیں دوبارہ پیدا کرنے سے عاجز ہو جائے گا؟ “
«أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّ اللَّـهَ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَلَمْ يَعْيَ بِخَلْقِهِنَّ بِقَادِرٍ عَلَىٰ أَن يُحْيِيَ الْمَوْتَىٰ ۚ بَلَىٰ إِنَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ»[46-الأحقاف:33] ” آسمان و زمین کی پیدائش تو تمہاری پیدائش سے بہت بڑی ہے، وہ ان کے پیدا کرنے میں نہیں تھکا، کیا وہ مردوں کو زندہ کرنے سے بے اختیار ہو جائے گا؟ “
«أَوَلَيْسَ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ بِقَادِرٍ عَلَىٰ أَن يَخْلُقَ مِثْلَهُم ۚ بَلَىٰ وَهُوَ الْخَلَّاقُ الْعَلِيمُ * إِنَّمَا أَمْرُهُ إِذَا أَرَادَ شَيْئًا أَن يَقُولَ لَهُ كُن فَيَكُونُ * فَسُبْحَانَ الَّذِي بِيَدِهِ مَلَكُوتُ كُلِّ شَيْءٍ وَإِلَيْهِ تُرْجَعُونَ» [36-يس:81-83] ” کیا آسمان و زمین کا خالق انسانوں جیسے اور پیدا نہیں کر سکتا؟ بیشک کر سکتا ہے۔ اس کا حکم ہی چیز کے وجود کیلئے کافی وافی ہے۔ “
وہ انہیں قیامت کے دن دوبارہ کی نئی پیدائش میں ضرور اور قطعا پیدا کرے گا۔ اس نے ان کے اعادہ کی، ان کے قبروں سے نکل کھڑے ہونے کی مدت مقرر کر رکھی ہے۔ اس وقت یہ سب کچھ ہو کر رہے گا۔ یہاں کی قدرے تاخیر صرف معینہ وقت کو پورا کرنے کیلئے ہے۔ افسوس کس قدر واضح دلائل کے بعد بھی لوگ کفر و ضلالت کو نہیں چھوڑتے۔