سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ربیعہ کے دونوں بیٹے عتبہ اور شیبہ اور ابوسفیان بن حرب اور بنی عبدالدار قبیلے کے دو شخص اور ابوالبختری بنی اسد کا اور اسود بن مطلب بن اسد اور زمعہ بن اسود اور ولید بن مغیرہ اور ابوجہل بن ہشام اور عبداللہ بن ابی امیہ اور امیہ بن خلف اور عاص بن وائل اور نبیہ اور منبہ سہمی حجاج کے لڑکے، یہ سب یا ان میں سے کچھ سورج کے غروب ہو جانے کے بعد کعبۃ اللہ کے پیچھے جمع ہوئے اور کہنے لگے، بھئی کسی کو بھیج کر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بلوالو اور اس سے کہہ سن کر آج فیصلہ کرلو تاکہ کوئی عذر باقی نہ رہے۔ چنانچہ قاصد گیا اور خبر دی کہ آپ کی قوم کے اشراف لوگ جمع ہوئے ہیں اور آپ کو یاد کیا ہے۔
چونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ان لوگوں کا ہر وقت خیال رہتا تھا آپ کے جی میں آئی کہ بہت ممکن ہے اللہ نے انہیں صحیح سمجھ دے دی ہو اور یہ راہ راست پر آ جائیں، اس لیے آپ فوراً ہی تشریف لائے۔ قریشیوں نے آپ کو دیکھتے ہی کہا، سنئے آج ہم آپ پر حجت پوری کر دیتے ہیں تاکہ پھر ہم پر کسی قسم کا الزام نہ آئے اسی لیے ہم نے آپ کو بلوایا ہے۔
واللہ کسی نے اپنی قوم کو اس مصیبت میں نہیں ڈالا ہوگا جو مصیبت تم نے ہم پر کھڑی کر رکھی ہے، تم ہمارے باپ دادوں کو گالیاں دیتے ہو ہمارے دین کو برا کہتے ہو ہمارے بزرگوں کو بیوقوف بتاتے ہو ہمارے مبعودوں کو برا کہتے ہو، تم نے ہم میں تفریق ڈال دی لڑائیاں کھڑی کر دیں، واللہ آپ نے ہمیں کسی برائی کے پہنچانے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔
اب صاف صاف سن لیجئے اور سوچ سمجھ کر جواب دیئجے، اگر آپ کا ارادہ ان تمام باتوں سے مال جمع کرنے کا ہے تو ہم موجود ہیں ہم خود آپ کو اس قدر مال جمع کر دیتے ہیں کہ آپ کے برابر ہم میں سے کوئی مالدار نہ ہو اور اگر آپ کا ارادہ اس سے یہ ہے کہ آپ ہم پر سرداری کریں تو لو ہم اس کے لیے بھی تیار ہیں ہم آپ کی سرداری کو تسلیم کرتے ہیں اور آپ کی تابعداری منظور کرتے ہیں۔
اگر آپ بادشاہت کے طالب ہیں تو واللہ ہم آپ کی بادشاہت کا اعلان کر دیتے ہیں اور اگر واقعی آپ کے دماغ میں کوئی فتور ہے، کوئی جن آپ کو ستا رہا ہے تو ہم موجود ہیں دل کھول کر رقمیں خرچ کر کے تمہارا علاج معالجہ کریں گے یہاں تک کہ آپ کو شفاء ہو جائے یا ہم معذور سمجھ لیے جائیں۔
یہ سب سن کر سردار رسولاں شفیع پیغمبراں صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا کہ سنو بحمد اللہ مجھے کوئی دماغی عارضہ یا خلل یا آسیب نہیں نہ میں اپنی اس رسالت کی وجہ سے مالدار بننا چاہتا ہوں نہ کسی سرداری کی طمع ہے نہ بادشاہ بننا چاہتا ہوں، بلکہ مجھے اللہ تعالیٰ نے تم سب کی طرف اپنا رسول برحق بناکر بھیجا ہے اور مجھ پر اپنی کتاب نازل فرمائی ہے اور مجھے حکم دیا ہے کہ میں تمہیں خوشخبریاں سنادوں اور ڈرا دھمکا دوں۔
میں نے اپنے رب کے پیغامات تمہیں پہنچا دئیے، تمہاری سچی خیر خواہی کی۔ تم اگر قبول کر لو گے تو دونوں جہان میں نصیب دار بن جاؤ گے اور اگر نامنظور کر دو گے تو میں صبر کروں گا یہاں تک کہ جناب باری تعالیٰ شانہ مجھ میں اور تم میں سچا فیصلہ فرما دے «او کماقال» ۔
اب سرداران قوم نے کہا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اگر آپ کو ہماری ان باتوں میں سے ایک بھی منظور نہیں تو اب اور سنو یہ تو خود تمہیں بھی معلوم ہے کہ ہم سے زیادہ تنگ شہر کسی اور کا نہیں، ہم سے زیادہ کم مال کوئی قوم نہیں، ہم سے زیادہ پیٹ پیٹ کر بہت کم روزی حاصل کرنے والی بھی کوئی قوم نہیں۔
تو آپ اپنے رب سے جس نے آپ کو اپنی رسالت دے کر بھیجا ہے دعا کیجئے کہ یہ پہاڑ یہاں سے ہٹا لے تاکہ ہمارا علاقہ کشادہ ہو جائے، ہمارے شہروں کو وسعت ہو جائے، اس میں نہریں چشمے اور دریا جاری ہو جائیں جیسے کہ شام اور عراق میں ہیں اور یہ بھی دعا کیجئے کہ ہمارے باپ دادا زندہ ہو جائیں اور ان میں قصی بن کلاب ضرور ہو، وہ ہم میں ایک بزرگ اور سچا شخص تھا، ہم اس سے پوچھ لیں گے وہ آپ کی بابت جو کہہ دے گا ہمیں اطمینان ہو جائے گا۔
اگر آپ نے یہ کر دیا تو ہمیں آپ کی رسالت پر ایمان آ جائے گا اور ہم آپ کی دل سے تصدیق کرنے لگیں گے اور آپ کی بزرگی کے قائل ہو جائیں گے۔ آپ نے فرمایا میں ان چیزوں کے ساتھ نہیں بھیجا گیا۔ ان میں سے کوئی کام میرے بس کا نہیں، میں تو اللہ کی باتیں تمہیں پہنچانے کے لیے آیا ہوں۔ تم قبول کر لو، دونوں جہان میں خوش رہو گے۔ نہ قبول کرو گے تو میں صبر کروں گا۔ اللہ کے حکم پر منتظر رہوں گا، یہاں تک کہ پروردگار عالم مجھ میں اور تم میں فیصلہ فرما دے۔
انہوں نے کہا، اچھا یہ بھی نہ سہی، لیجئے ہم خود آپ کے لیے ہی تجویز کرتے ہیں، آپ اللہ سے دعا کیجئے کہ وہ کوئی فرشتہ آپ کے پاس بھیجے جو آپ کی باتوں کی سچائی اور تصدیق کر دے، آپ کی طرف سے ہمیں جواب دے اور اس سے کہہ کر آپ اپنے لیے باغات اور خزانے اور سونے چاندی کے محل بنوا لیجئے تاکہ خود آپ کی حالت تو سنور جائے، بازاروں میں چلنا پھرنا ہماری طرح تلاش معاش میں نکلنا یہ تو چھوٹ جائے۔ یہ اگر ہو جائے تو ہم مان لیں گے کہ واقعی اللہ تعالیٰ کے ہاں آپ کی عزت ہے اور آپ واقعی اللہ کے رسول ہیں۔
اس کے جواب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، نہ میں یہ کروں نہ اپنے رب سے یہ طلب کروں نہ اس کے ساتھ میں بھیجا گیا، مجھے تو اللہ تعالیٰ نے بشیر و نذیر بنایا ہے بس اور کچھ نہیں۔ تم مان لو تو دونوں جہان میں اپنا بھلا کرو گے اور نہ مانو نہ سہی۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ میرا پرودگار میرے اور تمہارے درمیان کیا فیصلہ کرتا ہے۔ انہوں نے کہا اچھا پھر ہم کہتے ہیں کہ جاؤ اپنے رب سے کہہ کر ہم پر آسمان گرا دو، تم تو کہتے ہی ہو کہ اگر اللہ چاہے تو ایسا کر دے تو پھر ہم کہتے ہیں بس کر دو ڈھیل نہ کرو۔
آپ نے فرمایا یہ اللہ کے اختیار کی بات ہے جو وہ چاہے کرے جو نہ چاہے نہ کرے۔ مشرکین نے کہا سنئے کیا اللہ تعالیٰ کو یہ معلوم نہ تھا کہ ہم تیرے پاس اس وقت بیٹھیں گے اور تجھ سے یہ چیزیں طلب کریں گے اور اس قسم کے سوالات کریں گے تو چاہیئے تھا کہ وہ تجھے پہلے سے مطلع کر دیتا اور یہ بھی بتا دیتا کہ تجھے کیا جواب دینا چاہیئے اور جب ہم تیری نہ مانیں تو وہ ہمارے ساتھ کیا کرے گا۔ سنئے ہم نے تو سنا ہے کہ آپ کو یہ سب کچھ یمامہ کا ایک شخص رحمان نامی ہے وہ سکھا جاتا ہے، اللہ کی قسم ہم تو رحمان پر ایمان لانے کے نہیں، ناممکن ہے کہ ہم اسے مانیں۔
ہم نے آپ سے سبکدوشی حاصل کرلی جو کچھ کہنا سننا تھا کہہ سن چکے اور آپ نے ہماری واجبی اور انصاف کی بات بھی نہیں مانی۔ اب کان کھول کر ہوشیار ہو کر سن لیجئے کہ ہم آپ کو اس حالت میں آزاد نہیں رکھ سکتے، اب یا تو ہم آپ کو ہلاک کر دیں گے یا آپ ہمیں تباہ کر دیں۔ کوئی کہنے لگا ہم تو فرشتوں کو پوجتے ہیں جو اللہ کی بیٹیاں ہیں۔ کسی نے کہا جب تک تو اللہ تعالیٰ کو اور اس کے فرشتوں کو کھلم کھلا ہمارے پاس نہ لائے ہم ایمان نہ لائیں گے۔
پھر مجلس برخاست ہوئی۔ عبداللہ بن ابی، امیہ بن مغیرہ بن عبداللہ بن مخزوم جو آپ کی پھوپھی عاتکہ بنت عبدالمطلب کا لڑکا تھا آپ کے ساتھ ہولیا اور کہنے لگا کہ یہ تو بڑی نامنصفی کی بات ہے کہ قوم نے جو کہا وہ بھی آپ نے منظور نہ کیا، پھر جو طلب کیا وہ بھی آپ نے پورا نہ کیا، پھر جس چیز سے آپ انہیں ڈراتے تھے وہ مانگا وہ بھی آپ نے نہ کیا، اب تو اللہ کی قسم میں آپ پر ایمان لاؤں گا ہی نہیں جب تک کہ آپ سیڑھی لگا کر آسمان پر چڑھ کر کوئی کتاب نہ لائیں اور چار فرشتے اپنے ساتھ اپنے گواہ بنا کر نہ لائیں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان تمام باتوں سے سخت رنجیدہ ہوئے۔ گئے تو آپ بڑے شوق سے تھے کہ شاید قوم کے سردار میری کچھ مان لیں لیکن جب ان کی سرکشی اور ایمان سے دوری آپ نے دیکھی بڑے ہی مغموم ہو کر واپس اپنے گھر آئے، صلی اللہ علیہ وسلم ۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:22719]
بات یہ ہے کہ ان کی یہ تمام باتیں بطور کفر و عناد اور بطور نیچا دکھانے اور لاجواب کرنے کے تھیں ورنہ اگر ایمان لانے کے لیے نیک نیتی سے یہ سوالات ہوتے تو بہت ممکن تھا کہ اللہ تعالیٰ انہیں یہ معجزے دکھا دیتا۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا گیا کہ اگر آپ کی چاہت ہو تو جو یہ مانگتے ہیں میں دکھا دوں۔
لیکن یہ یاد رہے کہ اگر پھر بھی ایمان نہ لائے تو انہیں وہ عبرتناک سزائیں دوں گا جو کسی کو نہ دی ہوں اور اگر آپ چاہیں تو میں ان پر توبہ کی قبولیت کا اور رحمت کا دروازہ کھلا رکھوں، آپ نے دوسری بات پسند فرمائی۔ [مسند احمد:242/1:صحیح]
اللہ اپنے نبی رحمت اور نبی توبہ پر درود و سلام بہت بہت نازل فرمائے۔ اسی بات اور اسی حکمت کا ذکر آیت «وَمَا مَنَعَنَا أَن نُّرْسِلَ بِالْآيَاتِ إِلَّا أَن كَذَّبَ بِهَا الْأَوَّلُونَ» [17-الإسراء:59] میں ہے۔
اور آیت «وَقَالُوْا مَالِ ھٰذَا الرَّسُوْلِ يَاْكُلُ الطَّعَامَ وَيَمْشِيْ فِي الْاَسْوَاقِ ۭ لَوْلَآ اُنْزِلَ اِلَيْهِ مَلَكٌ فَيَكُوْنَ مَعَهٗ نَذِيْرًا»[25-الفرقان:7-11] الخ، میں بھی ہے
کہ یہ سب چیزیں ہمارے بس میں ہیں اور یہ سب ممکن ہے۔ لیکن اسی وجہ سے کہ ان کے ظاہر ہو جانے کے بعد ایمان نہ لانے والوں کو پھر ہم چھوڑا نہیں کرتے، ہم ان نشانات کو روک رکھتے ہیں اور ان کفار کو ڈھیل دے رکھی ہے اور ان کا آخر ٹھکانا جہنم بنا رکھا ہے۔
پس ان کا سوال تھا کہ ریگستان عرب میں نہریں چل پڑیں دریا ابل پڑیں وغیرہ، ظاہر ہے کہ ان میں کوئی کام بھی اس قادر و قیوم اللہ پر بھاری نہیں سب کچھ اس کی قدرت تلے اور اس کے فرمان تلے ہے۔ لیکن وہ بخوبی جانتا ہے کہ یہ ازلی کافر ان معجزوں کو دیکھ کر بھی ایمان نہیں لانے کے۔ جیسے فرمان ہے «إِنَّ الَّذِينَ حَقَّتْ عَلَيْهِمْ كَلِمَتُ رَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ * وَلَوْ جَاءَتْهُمْ كُلُّ آيَةٍ حَتَّىٰ يَرَوُا الْعَذَابَ الْأَلِيمَ» [10-يونس:96]
” یعنی جن پر تیرے رب کی بات ثابت ہو چکی ہے انہیں باوجود تمام تر معجزات دیکھ لینے کے بھی ایمان نصیب نہ ہو گا یہاں تک کہ وہ المناک عذابوں کا معائنہ نہ کر لیں۔ “
اے نبی ان کی خواہش کے مطابق اگر ہم ان پر فرشتے بھی نازل فرمائیں اور مردے بھی ان سے باتیں کر لیں اور اتنا ہی نہیں بلکہ غیب کی تمام چیز کھلم کھلا ان کے سامنے ظاہر کر دیں تو بھی یہ کافر بغیر مشیت الٰہی ایمان لانے کے نہیں، ان میں سے اکثر جہالت کے پتلے ہیں۔ “
اپنے لئے دریا طلب کرنے کے بعد انہوں نے کہا، اچھا آپ ہی کے لیے باغات اور نہریں ہو جائیں۔ پھر کہا کہ اچھا یہ بھی نہ سہی تو آپ کہتے ہی ہیں کہ قیامت کے دن آسمان پھٹ جائے گا، ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے گا تو اب آج ہی ہم پر اس کے ٹکڑے گرا دیئجے۔ چنانچہ انہوں نے خود بھی اللہ تعالیٰ سے یہی دعا کی کہ «وَإِذْ قَالُوا اللَّـهُمَّ إِن كَانَ هَـٰذَا هُوَ الْحَقَّ مِنْ عِندِكَ فَأَمْطِرْ عَلَيْنَا حِجَارَةً مِّنَ السَّمَاءِ أَوِ ائْتِنَا بِعَذَابٍ أَلِيمٍ» [8-الأنفال:32]
” یعنی اے اللہ اگر یہ سب کچھ تیری جانب سے ہی برحق ہے تو ہم پر آسمان سے پتھر برسا۔ “ الخ۔
شعیب علیہ السلام کی قوم نے بھی یہی خواہش کی تھی جس بنا پر ان پر سائبان کے دن کا عذاب اترا۔ لیکن چونکہ ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم رحمۃ للعالمین اور نبی التوبہ تھے، آپ نے اللہ سے دعا کی کہ وہ انہیں ہلاکت سے بچا لے۔ ممکن ہے یہ نہیں تو ان کی اولادیں ہی ایمان قبول کر لیں، توحید اختیار کر لیں اور شرک چھوڑ دیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ آرزو پوری ہوئی، عذاب نہ اترا۔ خود ان میں سے بھی بہت سوں کو ایمان کی دولت نصیب ہوئی، یہاں تک کہ عبداللہ بن امیہ جس نے آخر میں کے ساتھ جاکر آپ کو باتیں سنائی تھیں اور ایمان نہ لانے کی قسمیں کھائیں تھیں وہ بھی اسلام کے جھنڈے تلے آئے رضی اللہ عنہ۔
«زُخْرُفٍ» سے مراد سونا ہے بلکہ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی قرأت میں لفظ «مِنِْ ذَهَبَ» ہے۔ کفار کا اور مطالبہ یہ تھا کہ تیرے لیے سونے کا گھر ہو جائے یا ہمارے دیکھتے ہوئے تو سیڑھی لگاکر آسمان پر پہنچ جائے اور وہاں سے کوئی کتاب لائے جو ہر ایک کے نام کی الگ الگ ہو، راتوں رات ان کے سرہانے وہ پرچے پہنچ جائیں ان پر ان کے نام لکھے ہوئے ہوں۔
اس کے جواب میں حکم ہوا کہ ان سے کہہ دو کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے آگے کسی کی کچھ نہیں چلتی، وہ اپنی سلطنت اور مملکت کا تنہا مالک ہے، جو چاہے کرے جو نہ چاہے نہ کرے، تمہاری منہ مانگی چیز ظاہر کرے نہ کرے یہ اس کے اختیار کی بات ہے۔ میں تو صرف پیغام رب پہنچانے والا ہوں، میں نے اپنا فرض ادا کر دیا، احکام الٰہی تمہیں پہنچا دئیے، اب جو تم نے مانگا وہ اللہ کے بس کی بات ہے نہ کہ میرے بس کی۔
مسند احمد میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں بطحاء مکہ کی بابت مجھ سے فرمایا گیا کہ اگر تم چاہو تو میں اسے سونے کا بنا دوں، میں نے گزارش کی کہ نہیں اے اللہ میری تو یہ چاہت ہے کہ ایک روز پیٹ بھرا رہوں اور دوسرے روز بھوکا رہوں، بھوک میں تیری طرف جھکوں، تضرع اور زاری کروں اور بکثرت تیری یاد کروں۔ بھرے پیٹ ہو جاؤں تو تیری حمد کروں، تیرا شکر بجا لاؤں۔ [سنن ترمذي:2347،قال الشيخ الألباني:ضعیف] ترمذی میں بھی یہ حدیث ہے اور امام ترمذی رحمہ اللہ نے اسے ضعیف کہا ہے۔