سورۃ فاتحہ کو ختم کر کے آمین کہنا مستحب ہے۔ آمین مثل «یاسین» کے ہے اور آمین بھی کہا گیا ہے اور اس کے معنی یہ ہیں کہ ”اے اللہ تو قبول فرما۔“
آمین کہنے کے مستحب ہونے کی دلیل وہ حدیث ہے جو مسند احمد، ابوداؤد اور ترمذی میں سیدنا وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ کہتے ہیں میں نے سنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم «غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ» کہہ کر «آمِينَ» کہتے تھے اور آواز دراز کرتے تھے ۔ [سنن ترمذي:248،قال الشيخ الألباني:صحیح]
ابوداؤد میں ہے آواز بلند کرتے تھے ۔ [سنن ابوداود:392،قال الشيخ الألباني:صحیح] امام ترمذی رحمہ اللہ اس حدیث کو حسن کہتے ہیں۔
سیدنا علی، سیدنا ابن مسعود، سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمین پہلی صف والے لوگ جو آپ کے قریب ہوتے سن لیتے ۔ [سنن ابوداود:934،قال الشيخ الألباني:ضعيف] ابوداؤد اور ابن ماجہ میں یہ حدیث ہے۔
ابن ماجہ میں یہ بھی ہے کہ آمین کی آواز سے مسجد گونج اٹھتی تھی ۔ [سنن ابن ماجہ:853،قال الشيخ الألباني:ضعيف] دارقطنی میں بھی یہ حدیث ہے ۔ [دارقطنی:335/1:حسن]
اور امام دارقطنی رحمہ اللہ بتاتے ہیں کہ سیدنا بلال رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہتے تھے۔ مجھ سے پہلے آمین نہ کہا کیجئے ۔ [سنن ابوداود:937،قال الشيخ الألباني:ضعيف]
حسن بصری اور جعفر صادق رحمہ اللہ علیہم سے آمین کہنا مروی ہے۔ جیسے کہ «آمِّينَ الْبَيْتَ الْحَرَامَ»[5-المائدة:2] قرآن میں ہے۔
ہمارے اصحاب وغیرہ کہتے ہیں جو نماز میں نہ ہو اسے بھی آمین کہنا چاہیئے۔ ہاں جو نماز میں ہو اس پر تاکید زیادہ ہے۔ نمازی خود اکیلا ہو، خواہ مقتدی ہو، خواہ امام ہو، ہر حالت میں آمین کہے۔
صحیحین میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب امام آمین کہے تم بھی آمین کہو جس کی آمین فرشتوں کی آمین سے مل جائے اس کے تمام سابقہ گناہ معاف ہو جاتے ہیں“ ۔ [صحیح بخاری:786]
صحیح مسلم میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی اپنی نماز میں آمین کہتا ہے اور فرشتے آسمان میں آمین کہتے ہیں اور ایک کی آمین دوسرے کی آمین سے مل جاتی ہے تو اس کے تمام پہلے گناہ معاف ہو جاتے ہیں“ ۔ [صحیح مسلم:410]
مطلب یہ ہے کہ اس کی آمین کا اور فرشتوں کی آمین کا وقت ایک ہی ہو جائے یا موافقت سے مراد قبولیت میں موافق ہونا ہے یا اخلاص میں۔
صحیح مسلم میں سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً روایت ہے کہ جب امام «وَلَا الضَّالِّينَ» کہے تو آمین کہو اللہ قبول فرمائے گا ۔ [صحیح مسلم:404]
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا آمین کے کیا معنی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے اللہ تو کر“ ۔ [تفسیر کشاف:18/1:ضعیف]
جوہری کہتے ہیں اس کے معنی ”اسی طرح ہو“ ہیں۔
امام ترمذی کہتے ہیں اس کے معنی ہیں کہ ”ہماری امیدوں کو نہ توڑ۔“
اکثر علماء فرماتے ہیں اس کے معنی ”اے اللہ تو ہماری دعا قبول فرما“ کے ہیں۔
مجاہد، جعفر صادق، ہلال بن سیاف رحمہ اللہ علیہم فرماتے ہیں کہ آمین اللہ تعالیٰ کے ناموں میں سے ایک نام ہے۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مرفوعاً بھی یہ مروی ہے لیکن صحیح نہیں ۔ [عبدالرزاق:2651]
امام مالک رحمہ اللہ کے اصحاب کا مذہب ہے کہ امام آمین نہ کہے مقتدی آمین کہے کیونکہ موطا مالک کی حدیث میں ہے کہ جب امام «وَلَا الضَّالِّينَ» کہے تو تم آمین کہو ۔ [صحیح بخاری:796]
اسی طرح ان کی دلیل کی تائید میں صحیح مسلم والی سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کی یہ روایت بھی آتی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب امام «وَلَا الضَّالِّينَ» کہے تو تم آمین کہو“ ۔ [صحیح مسلم:404]
لیکن بخاری و مسلم کی حدیث پہلے بیان ہو چکی کہ جب امام آمین کہے تو تم بھی آمین کہو ۔ [صحیح بخاری:786]
اور یہ بھی حدیث میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم «وَلَا الضَّالِّينَ» پڑھ کر آمین کہتے تھے ۔ [سنن ترمذي:248،قال الشيخ الألباني:صحیح]