تفسير ابن كثير



وطنی عصبیت اور یہودی ٭٭

کہتے ہیں کہ یہودیوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا تھا کہ آپ کو ملک شام چلا جانا چاہیئے وہی نبیوں کا وطن ہے اس شہر مدینہ کو چھوڑ دینا چاہیئے اس پر یہ آیت اتری۔ لیکن یہ قول ضعیف ہے اس لیے کہ یہ آیت مکی ہے اور مدینے میں آپ کی رہائش اس کے بعد ہوئی ہے۔ کہتے ہیں کہ تبوک کے بارے میں یہ آیت اتری ہے، یہودیوں کے کہنے سے کہ شام جو نبیوں کی اور محشر کی زمین ہے آپ کو وہیں رہنا چاہیئے، اگر آپ سچے پیغمبر ہیں تو وہاں چلے جائیں، آپ نے انہیں ایک حد تک سچا سمجھا۔

غزوہ تبوک سے آپ کی نیت یہی تھی لیکن تبوک پہنچتے ہی سورۃ بنی اسرائیل کی آیتیں اتریں، اس کے بعد کہ سورت ختم کر دی گئی تھی آیت «وَإِن كَادُوا لَيَسْتَفِزُّونَكَ مِنَ الْأَرْضِ لِيُخْرِجُوكَ مِنْهَا ۖ وَإِذًا لَّا يَلْبَثُونَ خِلَافَكَ إِلَّا قَلِيلًا * سُنَّةَ مَن قَدْ أَرْسَلْنَا قَبْلَكَ مِن رُّسُلِنَا ۖ وَلَا تَجِدُ لِسُنَّتِنَا تَحْوِيلًا» [17-الإسراء:77] ‏‏‏‏ تک اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو مدینے کی واپسی کا حکم دیا اور فرمایا وہیں آپ کی موت و زیست اور وہیں سے دوبارہ اٹھ کر کھڑا ہونا ہے۔ [الدر المنشور للسیوطی:353/4] ‏‏‏‏

لیکن اس کی سند بھی غور طلب ہے اور صاف ظاہر ہے کہ یہ واقعہ بھی ٹھیک نہیں، تبوک کا غزوہ یہود کے کہنے سے نہ تھا بلکہ اللہ کا فرمان موجود ہے آیت «ا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قَاتِلُوا الَّذِينَ يَلُونَكُم مِّنَ الْكُفَّارِ» ‏‏‏‏ [9-التوبة:123] ‏‏‏‏ ” جو کفار تمہارے اردگرد ہیں ان سے جہاد کرو۔ “

اور آیت میں ہے کہ «قَاتِلُوا الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِاللَّـهِ وَلَا بِالْيَوْمِ الْآخِرِ وَلَا يُحَرِّمُونَ مَا حَرَّمَ اللَّـهُ وَرَسُولُهُ وَلَا يَدِينُونَ دِينَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ حَتَّىٰ يُعْطُوا الْجِزْيَةَ عَن يَدٍ وَهُمْ صَاغِرُونَ» [9-التوبة:29] ‏‏‏‏ ” جو اللہ پر اور قیامت پر ایمان نہیں رکھتے اللہ رسول کے حرام کردہ کو حرام نہیں سمجھتے اور حق کو قبول نہیں کرتے ایسے اہل کتاب سے اللہ کی راہ میں جہاد کرو یہاں تک کہ وہ ذلت کے ساتھ جزیہ دینا منظور کر لیں۔ “

اور اس غزوے کی وجہ یہ تھی کہ آپ کے جو اصحاب جنگ موتہ میں شہید کر دئے گئے تھے ان کا بدلہ لیا جائے، «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔ اور اگر مندرجہ بالا واقعہ صحیح ہو جائے تو اسی پر وہ حدیث محمول کی جائے گی، جس میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں «أنزل القرآن في ثلاثة أمكنة: مكة، والمدينة، والشام» ‏‏‏‏ مکہ، مدینہ اور شام میں قرآن نازل ہوا ہے۔ ولید تو اس کی شرح میں لکھتے ہیں کہ شام سے مراد بیت المقدس ہے۔ [طبرانی کبیر:7718:ضعیف] ‏‏‏‏ لیکن شام سے مراد تبوک کیوں نہ لیا جائے جو بالکل صاف اور بہت درست ہے۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔

ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد کافروں کا وہ ارادہ ہے جو انہوں نے مکے سے جلا وطن کرنے کے بارے میں کیا تھا چنانچہ یہی ہوا بھی کہ جب انہوں نے آپ کو نکالا۔ پھر یہ بھی وہاں زیادہ مدت نہ گزار سکے، اللہ تعالیٰ نے فوراً ہی آپ کو غالب کیا۔ ڈیڑھ سال ہی گزرا تھا کہ بدر کی لڑائی بغیر کسی تیاری اور اطلاع کے اچانک ہو گئی اور وہیں کافروں کا اور کفر کا دھڑ ٹوٹ گیا، ان کے شریف و رئیس تہ تیغ ہوئے، ان کی شان و شوکت خاک میں مل گئی، ان کے سردار قید میں آ گئے۔

پس فرمایا کہ یہی عادت پہلے سے جاری ہے۔ سابقہ رسولوں کے ساتھ بھی یہی ہوا کہ کفار نے جب انہیں تنگ کیا اور دیس سے نکال دیا پھر وہ بچ نہ سکے، عذاب اللہ نے انہیں غارت اور بے نشان کردیا۔ ہاں چونکہ ہمارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم رسول رحمت تھے، اس لیے کوئی آسمانی عام عذاب ان کافروں پر نہ آیا۔ جیسے فرمان ہے آیت «‏‏‏‏وَمَا كَانَ اللَّـهُ لِيُعَذِّبَهُمْ وَأَنتَ فِيهِمْ ۚ وَمَا كَانَ اللَّـهُ مُعَذِّبَهُمْ وَهُمْ يَسْتَغْفِرُونَ» ‏‏‏‏ [8-الأنفال:33 ] ‏‏‏‏ ” یعنی تیری موجودگی میں اللہ انہیں عذاب نہ کرے گا۔ “



https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.