تمہارا رب تم سے بخوبی واقف ہے وہ ہدایت کے مستحق لوگوں کو بخوبی جانتا ہے۔ وہ جس پر چاہتا ہے رحم کرتا ہے، اپنی اطاعت کی توفیق دیتا ہے اور اپنی جانب جھکا لیتا ہے۔ اسی طرح جسے چاہے بداعمالی پر پکڑ لیتا ہے اور سزا دیتا ہے۔ ہم نے تجھے ان کا ذمہ دار نہیں بنایا تیرا کام ہوشیار کر دینا ہے تیری ماننے والے جنتی ہوں گے اور نہ ماننے والے دوزخی بنیں گے۔
زمین و آسمان کے تمام انسان جنات فرشتوں کا اسے علم ہے، ہر ایک کے مراتب کا اسے علم ہے، «تِلْكَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ ۘ مِّنْهُم مَّن كَلَّمَ اللَّـهُ ۖ»[2-البقرة:253] ” ایک کو ایک پر فضیلت ہے، نبیوں میں بھی درجے ہیں، کوئی کلیم اللہ ہے، کوئی بلند درجہ ہے۔ “
ایک حدیث میں ہے کہ نبیوں میں فضیلتیں قائم نہ کیا کرو۔ [صحیح بخاری:3414]
اس سے مطلب صرف تعصب اور نفس پرستی سے اپنے طور پر فضیلت قائم کرنا ہے نہ یہ کہ قرآن و حدیث سے ثابت شدہ فضیلت سے بھی انکار۔ جو فضیلت جس نبی کی از روئے دلیل ثابت ہو جائے گی اس کا ماننا واجب ہے۔
مانی ہوئی بات ہے کہ تمام انبیاء سے رسول افضل ہیں اور رسولوں میں پانچ اولو العزم رسول سب سے افضل ہیں جن کا نام سورۃ الاحزاب کی آیت میں ہے «وَإِذْ أَخَذْنَا مِنَ النَّبِيِّينَ مِيثَاقَهُمْ وَمِنكَ وَمِن نُّوحٍ وَإِبْرَاهِيمَ وَمُوسَىٰ وَعِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ»[33-الأحزاب:7] ” یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم ، نوح علیہ السلام، ابراہیم علیہ السلام، موسیٰ علیہ السلام، عیسیٰ علیہ السلام۔ “
سورۃ شوریٰ کی آیت «شَرَعَ لَكُمْ مِّنَ الدِّيْنِ مَا وَصّٰى بِهٖ نُوْحًا وَّالَّذِيْٓ اَوْحَيْنَآ اِلَيْكَ وَمَا وَصَّيْنَا بِهٖٓ اِبْرٰهِيْمَ وَمُوْسٰى وَعِيْسٰٓى اَنْ اَقِيْمُوا الدِّيْنَ وَلَا تَتَفَرَّقُوْا فِيْهِ ۭ كَبُرَ عَلَي الْمُشْرِكِيْنَ مَا تَدْعُوْهُمْ اِلَيْهِ ۭ اَللّٰهُ يَجْتَبِيْٓ اِلَيْهِ مَنْ يَّشَاۗءُ وَيَهْدِيْٓ اِلَيْهِ مَنْ يُّنِيْبُ»[42-الشورى:13] میں بھی ان پانچوں کے نام موجود ہیں۔
جس طرح یہ سب چیزیں ساری امت مانتی ہے، اسی طرح بغیر اختلاف کے یہ بھی ثابت ہے کہ ان میں بھی سب سے افضل محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ پھر ابراہیم علیہ السلام، پھر موسیٰ علیہ السلام جیسا کہ مشہور ہے، ہم نے اس کے دلائل دوسری جگہ تفصیل سے بیان کئے ہیں «واللہ الموفق» ۔
پھر فرماتا ہے ہم نے داؤد پیغمبر علیہ السلام کو زبور دی۔ یہ بھی ان کی فضیلت اور شرف کی دلیل ہے۔ صحیح بخاری شریف میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں داؤد علیہ السلام پر قرآن اتنا آسان کر دیا گیا تھا کہ جانور پر زین کسی جائے اتنی سی دیر میں آپ قرآن پڑھ لیا کرتے تھے۔ [صحیح بخاری:3417]