تفسير ابن كثير



فائدہ

ایک نہایت عمدہ اور بہت زبردست فائدہ اس بیان میں اس روایت سے ہوتا ہے جو حافظ ابو نعیم اصبہانی رحمہ اللہ کتاب دلائل النبوۃ میں لائے ہیں کہ جب وحیہ بن خلیفہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قیصر روم کے پاس بطور قاصد کے اپنے نامہ مبارک کے ساتھ بھیجا۔ یہ گئے، پہنچے اور عرب تاجروں کو جو ملک شام میں تھے، ہرقل نے جمع کیا۔ ان میں ابوسفیان صخر بن حرب تھا اور اس کے ساتھی مکے کے دوسرے کافر بھی تھے۔ پھر اس نے ان سے بہت سے سوالات کئے جو بخاری و مسلم وغیرہ میں مذکور ہیں۔ [صحیح بخاری:7] ‏‏‏‏

ابوسفیان کی اول سے آخر تک یہی کوشش رہی کہ کسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی برائی اور حقارت اس کے سامنے کرے تاکہ بادشاہ کے دل کا میلان نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نہ ہو۔ وہ خود کہتا ہے کہ میں صرف اس خوف سے غلط باتیں کرنے اور تہمتیں دھرنے سے باز رہا کہ کہیں میرا کوئی جھوٹ اس پر کھل نہ جائے۔ پھر تو یہ میری بات کو جھٹلا دے گا اور بڑی ندامت ہو گی۔

اسی وقت دل میں خیال آ گیا اور میں نے کہا، بادشاہ سلامت سنئے، میں ایک واقعہ بیان کروں جس سے آپ پر یہ بات کھل جائے گی کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم بڑے جھوٹے آدمی ہیں۔ سنئے ایک دن وہ کہنے لگا کہ اس رات وہ مکہ سے چلا اور آپ کی اس مسجد میں یعنی بیت المقدس کی مسجد قدس میں آیا اور پھر واپس صبح سے پہلے مکہ پہنچ گیا۔

میری یہ بات سنتے ہی بیت المقدس کا لاٹ پادری جو شاہ روم کی اس مجلس میں اس کے پاس بڑی عزت سے بیٹھا تھا، فوراً ہی بول اٹھا کہ یہ بالکل سچ ہے۔ مجھے اس رات کا علم ہے۔ قیصر نے تعجب خیز نظر سے اس کی طرف دیکھا اور ادب سے پوچھا، جناب کو کیسے معلوم ہوا؟ اس نے کہا، سنئے میری عادت تھی اور یہ کام میں نے اپنے متعلق کر رکھا تھا کہ جب تک مسجد شریف کے تمام دروازے اپنے ہاتھ سے بند نہ کر لوں، سوتا نہ تھا۔

اس رات میں دروازے بند کرنے کو کھڑا ہوا۔ سب دروازے اچھی طرح بند کر دئے لیکن ایک دروازہ مجھ سے بند نہ ہو سکا۔ میں نے ہر چند زور لگایا لیکن کواڑ اپنی جگہ سے سرکا بھی نہیں، میں نے اسی وقت اپنے آدمیوں کو آواز دی۔ وہ آئے ہم سب نے مل کر طاقت لگائی لیکن سب کے سب ناکام رہے۔

بس یہ معلوم ہو رہا تھا کہ گویا ہم کسی پہاڑ کو اس کی جگہ سے سرکانا چاہتے ہیں لیکن اس کا پہیہ تک بھی تو نہیں ہلا۔ میں نے بڑھئی بلوائے۔ انہوں نے بہت ترکیبیں کیں، کوششیں کیں لیکن وہ بھی ہار گئے اور کہنے لگے، صبح پر رکھئے۔ چنانچہ وہ دروازہ اس شب یونہی رہا، دونوں کواڑ بالکل کھلے رہے۔

صبح ہی جب میں اسی دروازے کے پاس گیا تو دیکھا کہ اس کے پاس کونے میں جو چٹان پتھر کی تھی اس میں ایک سوراخ ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس میں رات کو کسی نے کوئی جانور باندھا ہے۔ اس کے اثر اور نشان موجود تھے۔ میں سمجھ گیا اور میں نے اسی وقت اپنی جماعت سے کہا کہ آج کی رات ہماری یہ مسجد کسی نبی کے لیے کھلی رکھی گئی اور اس نے یہاں ضرور نماز ادا کی ہے۔ [ضعیف] ‏‏‏‏ یہ حدیث بہت لمبی ہے۔

ابو الخطاب عمر بن وحیہ رحمہ اللہ اپنی کتاب التنویر فی مولد السراج المنیر میں سیدنا انس رضی اللہ عنہ کی روایت سے معراج کی حدیث وارد کرکے اس کے متعلق نہایت عمدہ کلام کرکے پھر فرماتے ہیں، معراج کی حدیث متواتر ہے۔

سیدنا عمر بن خطاب، سیدنا علی، سیدنا ابن مسعود، سیدنا ابوذر، سیدنا مالک بن صعصعہ، سیدنا ابوہریرہ، سیدنا ابوسعید، سیدنا ابن عباس، سیدنا شداد بن اوس، سیدنا ابی بن کعب، سیدنا عبدالرحمٰن بن قرظ، سیدنا ابو حبہ، سیدنا ابو لیل، سیدنا عبداللہ بن عمرو، سیدنا جابر، سیدنا حذیفہ، سیدنا بریدہ، سیدنا ابو ایوب، سیدنا ابو امامہ، سیدنا سمرہ بن جندب، سیدنا ابو الحمراء، سیدنا صہیب رومی، سیدہ ام ہانی، سیدہ عائشہ اور سیدہ اسماء وغیرہ سے مروی ہے رضی اللہ عنہم اجمعین۔

ان میں سے بعض نے تو اسے مطول بیان کیا ہے اور بعض نے مختصر۔ گو ان میں سے بعض روایتیں سنداً صحیح نہیں لیکن بالجملہ صحت کے ساتھ واقعہ معراج ثابت ہے اور مسلمان اجماعی طور پر اس کے قائل ہیں۔ ہاں بیشک زندیق اور ملحد لوگ اس کے منکر ہیں۔ «يُرِيدُونَ لِيُطْفِئُوا نُورَ اللَّـهِ بِأَفْوَاهِهِمْ وَاللَّـهُ مُتِمُّ نُورِهِ وَلَوْ كَرِهَ الْكَافِرُونَ» [61-الصف:8] ‏‏‏‏ ” وہ اللہ تعالیٰ کے نورانی چراغ کو اپنے منہ کی پھونکوں سے بجھانا چاہتے ہیں۔ لیکن وہ پوری روشنی کے ساتھ چمکتا ہوا ہی رہے گا، گو کافروں کو برا لگے۔ “



https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.