پھر اس میں بھی لوگوں نے اختلاف کیا ہے کہ معراج آپ کو جسم و روح سمیت کرائی گئی تھی؟ یا صرف روحانی طور پر؟ اکثر علماء کرام تو یہی فرماتے ہیں کہ جسم و روح سمیت آپ کو معراج ہوئی اور ہوئی بھی جاگتے میں نہ کہ بطور خواب کے۔ ہاں اس کا انکار نہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پہلے خواب میں یہی چیزیں دکھائی گئی ہوں۔ آپ خواب میں جو کچھ ملاحظہ فرماتے، اسے اسی طرح پھر واقعہ میں جاگتے ہوئے بھی ملاحظہ فرما لیتے۔
اس کی بڑی دلیل ایک تو یہ ہے کہ اس واقعہ کے بیان فرمانے سے پہلے اللہ تعالیٰ نے اپنی پاکیزگی بیان فرمائی ہے۔ اس اسلوب بیان کا تقاضا یہ ہے کہ اس کے بعد کی بات کوئی بڑی اہم ہے۔ اگر یہ واقعہ خواب کا مانا جائے تو خواب میں ایسی باتیں دیکھ لینا اتنا اہم نہیں کہ اس کو بیان فرماتے ہوئے اللہ تعالیٰ پہلے سے بطور احسان اور بطور اظہار قدرت اپنی تسبیح بیان کرے۔
پھر اگر یہ واقعہ خواب کا ہی تھا تو کفار اس طرح جلدی سے آپ کی تکذیب نہ کرتے، ایک شخص اپنا خواب اور خواب میں دیکھی ہوئی عجیب چیزیں بیان کر رہا ہے یا کرے تو کوئی وجہ نہ تھی کہ بھڑ بھڑا کر آ جائیں اور سنتے ہی سختی سے انکار کرنے لگیں۔ پھر جو لوگ کہ اس سے پہلے آپ پر ایمان لا چکے تھے اور آپ کی رسالت کو قبول کر چکے تھے، کیا وجہ ہے کہ وہ واقعہ معراج کو سن کر اسلام سے پھر جاتے ہیں؟
اس سے بھی ظاہر ہے کہ آپ نے خواب کا قصہ بیان نہیں فرمایا تھا۔ پھر قرآن کے لفظ «بِعَبْدِهِ» پر غور کیجئے۔ عبد کا اطلاق روح اور جسم دونوں کے مجموعے پر آتا ہے۔ پھر «أَسْرَىٰ بِعَبْدِهِ لَيْلًا» کا فرمانا اس چیز کو اور صاف کر دیتا ہے کہ وہ اپنے بندے کو رات کے تھوڑے سے حصے میں لے گیا۔ اس دیکھنے کو لوگوں کی آزمائش کا سبب آیت «وَمَا جَعَلْنَا الرُّؤْيَا الَّتِي أَرَيْنَاكَ إِلَّا فِتْنَةً لِّلنَّاسِ»[17-الإسراء:60] میں فرمایا گیا ہے۔ ” اگر یہ خواب ہی تھا تو اس میں لوگوں کی ایسی بڑی کون سی آزمائش تھی جسے مستقل طور پر بیان فرمایا جاتا؟ “
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ یہ آنکھوں کا دیکھنا تھا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دکھایا گیا۔ [صحیح بخاری:4716] ۔ خود قرآن فرماتا ہے آیت «مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَمَا طَغَىٰ» [53-النجم:17] ” نہ تو نگاہ بہکی نہ بھٹکی۔ “ ظاہر ہے کہ بصر یعنی نگاہ انسان کی ذات کا ایک وصف ہے، نہ کہ صرف روح کا۔
پھر براق کی سواری کا لایا جانا اور اس سفید چمکیلے جانور پر سوار کراکر آپ کو لے جانا بھی اسی کی دلیل ہے کہ یہ واقعہ جاگنے کا اور جسمانی ہے ورنہ صرف روح کے لیے سواری کی ضرورت نہیں «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔ اور کچھ لوگ کہتے ہیں کہ یہ معراج صرف روحانی تھی نہ کہ جسمانی۔
چنانچہ محمد بن اسحاق لکھتے ہیں کہ سیدنا معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما کا یہ قول مروی ہے۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:22032:ضعیف و منقطع]
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جسم غائب نہیں ہوا تھا بلکہ روحانی معراج تھی۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:22033:ضعیف و باطل]
اس قول کا انکار نہیں کیا گیا کیونکہ حسن رحمہ اللہ فرماتے ہیں آیت «وَمَا جَعَلْنَا الرُّؤْيَا الَّتِي أَرَيْنَاكَ إِلَّا فِتْنَةً لِّلنَّاسِ»[17-الإسراء:60] الخ، آیت اتری ہے۔
اور ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی نسبت خبر دی ہے کہ انہوں نے فرمایا، میں نے خواب میں تیرا ذبح کرنا دیکھا ہے۔ اب تو سوچ لے کیا دیکھتا ہے؟ پھر یہی حال رہا۔ پس ظاہر ہے کہ انبیاء علیہم السلام پر وحی جاگتے میں بھی آتی ہے اور خواب میں بھی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ میری آنکھیں سو جاتی ہیں اور دل جاگتا رہتا ہے۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔
اس میں سے کون سی سچی بات تھی؟ آپ گئے اور آپ نے بہت سی باتیں دیکھیں۔ جس حال میں بھی آپ تھے سوتے یا جاگتے سب حق اور سچ ہے۔ یہ تو تھا محمد بن اسحاق رحمہ اللہ کا قول۔ امام ابن جریر رحمہ اللہ نے اس کی بہت کچھ تردید کی ہے اور ہر طرح اسے رد کیا ہے اور اسے خلاف ظاہر قرار دیا ہے کہ الفاظ قرآنی کے سراسر خلاف یہ قول ہے۔ پھر اس کے خلاف بہت سی دلیلیں پیش کی ہیں جن میں سے چند ہم نے بھی اوپر بیان کر دی ہیں۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔