اللہ تعالیٰ اپنی ذات کی عزت و عظمت اور اپنی پاکیزگی و قدرت بیان فرماتا ہے کہ وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ اس جیسی قدرت کسی میں نہیں۔ وہی عبادت کے لائق اور صرف وہی ساری مخلوق کی پرورش کرنے والا ہے۔ وہ اپنے بندے یعنی محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک ہی رات کے ایک حصے میں مکہ مکرمہ کی مسجد سے بیت المقدس کی مسجد تک لے گیا۔ جو ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کے زمانے سے انبیاء کرام علیہم السلام کا مرکز رہا۔ اسی لیے تمام انبیاء علیہم السلام وہیں آپ کے پاس جمع کئے گئے اور آپ نے وہیں ان سب کی امامت کی۔ جو اس امر کی دلیل ہے کہ امام اعظم اور رئیس مقدم آپ ہی ہیں۔ صلوات اللہ وسلامہ علیہ و علیہم اجمعین۔
اس مسجد کے اردگرد ہم نے برکت دے رکھی ہے۔ پھل، پھول، کھیت باغات وغیرہ سے۔ یہ اس لیے کہ ہمارا ارادہ اپنے اس محترم رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی زبردست نشانیاں دکھانے کا تھا۔ جو آپ نے اس رات ملاحظہ فرمائیں۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں، مومنوں، کافروں، یقین رکھنے والوں اور انکار کرنے والوں سب کی باتیں سننے والا ہے اور سب کو دیکھ رہا ہے۔ ہر ایک کو وہی دے گا، جس کا وہ مستحق ہے۔ دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔ معراج کی بابت بہت سی حدیثیں ہیں جو اب بیان ہو رہی ہیں۔
صحیح بخاری شریف میں انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ معراج والی رات جب کہ کعبۃ اللہ شریف سے آپ کو بلوایا گیا، آپ کے پاس تین فرشتے آئے، اس سے پہلے کہ آپ کی طرف وحی کی جائے۔ اس وقت آپ بیت اللہ شریف میں سوئے ہوئے تھے۔ ان میں سے ایک جو سب سے آگے تھا اس نے پوچھا کہ یہ ان سب میں سے کون ہیں؟ درمیان والے نے جواب دیا کہ یہ ان سب میں بہترین ہیں۔ تو سب سے اخیر والے نے کہا۔ پھر ان کو لے چلو۔ بس اس رات تو اتنا ہی ہوا۔ پھر آب نے انہیں نہ دیکھا۔
دوسری رات پھر یہ تینوں آئے۔ اس وقت بھی آپ سو رہے تھے۔ لیکن آپ کا سونا اس طرح کا تھا کہ آنکھیں سوتی تھیں اور دل جاگ رہا ہوتا۔ تمام انبیاء کی نیند اسی طرح کی ہوتی ہے۔ اس رات انہوں نے آپ سے کوئی بات نہ کی۔ آپ کو اٹھا کر چاہِ زمزم کے پاس لٹا دیا اور آپ کا سینہ گردن تک خود جبرائیل علیہ السلام نے اپنے ہاتھ سے چاک کیا۔ اور سینے اور پیٹ کی تمام چیزیں نکال کر اپنے ہاتھ سے دھوئیں۔ جب خوب پاک صاف کر چکے تو آپ کے پاس سونے کا ایک طشت لایا گیا جس میں سونے کا ایک بڑا پیالہ تھا جو حکمت وایمان سے پر تھا۔ اس سے آپ کے سینے کو اور گلے کی رگوں کو پر کر دیا گیا۔ پھر سینے کو سی دیا گیا۔
پھر آپ کو آسمان دنیا کی طرف لے چڑھے۔ وہاں کے دروازوں میں سے ایک دروازے کو کھٹکھٹایا۔ فرشتوں نے پوچھا کہ کون ہے؟ آپ نے فرمایا جبرائیل۔ پوچھا آپ کے ساتھ کون ہیں؟ فرمایا میرے ساتھ محمد ہیں صلی اللہ علیہ وسلم پوچھا۔ کیا آپ کو بلوایا گیا ہے جواب دیا کہ ”ہاں“، سب بہت خوش ہوئے اور مرحبا کہتے ہوئے آپ کو لے گئے۔
آسمانی فرشتے بھی کچھ نہیں جانتے کہ زمین پر اللہ تعالیٰ کیا کچھ کرنا چاہتا ہے۔ جب تک کہ انہیں معلوم نہ کرایا جائے۔ آپ نے آسمان دنیا پر آدم علیہ السلام کو پایا۔ جبرائیل علیہ السلام نے تعارف کرایا کہ ”یہ آپ کے والد آدم علیہ السلام ہیں انہیں سلام کیجئے۔“ آپ نے سلام کیا۔ آدم علیہ السلام نے جواب دیا، مرحبا کہا اور فرمایا ”آپ میرے بہت ہی اچھے بیٹے ہیں۔“ وہاں دو نہریں جاری دیکھ کر آپ نے جبرائیل علیہ السلام سے دریافت کیا کہ ”یہ نہریں کیا ہیں“؟ آپ نے جواب دیا کہ ”نیل اور فرات کا عنصر۔“ پھر آپ کو آسمان میں لے چلے۔ آپ نے ایک اور نہر دیکھی، جس پر لؤلؤ اور موتیوں کے بالاخانے تھے، جس کی مٹی خالص مشک تھے۔ پوچھا یہ کون سی نہر ہے؟ جواب ملا کہ یہ نہر کوثر ہے۔ جسے آپ کے پروردگار نے آپ کے لیے خاص طور پر مقرر کر رکھی ہے۔
پھر آپ کو تیسرے آسمان پر لے گئے۔ وہاں کے فرشتوں سے بھی وہی سوال جواب وغیرہ ہوئے، جو آسمان اول پر اور دوسرے آسمان پر ہوئے تھے۔ پھر آپ کو چوتھے آسمان پر چڑھایا گیا۔ ان فرشتوں نے بھی اسی طرح پوچھا اور جواب پایا وغیرہ۔ پھر پانچویں آسمان پر چڑھائے گئے۔ وہاں بھی وہی کہا سنا گیا، پھر چھٹے پر پھر ساتویں آسمان پر گئے، وہاں بھی بات چیت ہوئی۔ ہر آسمان پر وہاں کے نبیوں سے ملاقاتیں ہوئیں جن کے نام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بتائے جن میں سے مجھے یہ یاد ہیں کہ دوسرے آسمان میں ادریس علیہ السلام، چوتھے آسمان میں ہارون علیہ السلام، پانچویں والے کا نام مجھے یاد نہیں، چھٹے میں ابراہیم علیہ السلام اور ساتویں میں موسیٰ کلیم اللہ علیہ السلام۔
جب آپ یہاں سے بھی اونچے چلے تو موسیٰ علیہ السلام نے کہا ”اے اللہ میرا خیال تھا کہ مجھ سے بلند تو کسی کو نہ کرے گا“ اب آپ اس بلندی پر پہنچے جس کا علم اللہ ہی کو ہے یہاں تک کہ سدرۃ المنتہیٰ تک پہنچے اور اللہ تعالیٰ آپ سے بہت نزدیک ہوا۔ بقدر دو کمان کے بلکہ اس سے کم فاصلے پر۔ پھر اللہ کی طرف سے آپ کی جانب وحی کی گئی۔ جس میں آپ کی امت پر ہر دن رات میں پچاس نمازیں فرض ہوئیں۔ جب آپ وہاں سے اترے تو موسیٰ علیہ السلام نے آپ کو روکا اور پوچھا کیا حکم ملا؟ فرمایا ”دن رات میں پچاس نمازوں کا۔“ کلیم اللہ علیہ السلام نے فرمایا ”یہ آپ کی امت کی طاقت سے باہر ہے۔ آپ واپس جائیں اور کمی کی طلب کیجئے۔“
آپ نے جبرائیل علیہ السلام کی طرف دیکھا کہ گویا آپ ان سے مشورہ لے رہے ہیں۔ ان کا بھی اشارہ پایا کہ ”اگر آپ کی مرضی ہو تو کیا حرج ہے“؟ آپ پھر اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف گئے اور اپنی جگہ ٹھہر کر دعا کی کہ ”اے اللہ ہمیں تخفیف عطا ہو۔ میری امت اس کی طاقت نہیں رکھتی۔“ پس اللہ تعالیٰ نے دس نمازیں کم کر دیں۔ پھر آپ واپس لوٹے۔ موسیٰ علیہ السلام نے آپ کو پھر روکا اور یہ سن کر فرمایا۔ جاؤ اور کم کراؤ۔ آپ پھر گئے، پھر کم ہوئیں، یہاں تک کہ آخر میں پانچ رہ گئیں۔
موسیٰ علیہ السلام نے پھر بھی فرمایا کہ ”دیکھو میں بنی اسرائیل میں اپنی عمر گزار کر آیا ہوں۔ انہیں اس سے بھی کم حکم تھا لیکن پھر بھی وہ بے طاقت ثابت ہوئے اور اسے چھوڑ بیٹھے۔ آپ کی امت تو ان سے بھی ضعیف ہے، جسم کے اعتبار سے بھی اور دل، بدن، آنکھ کان کے اعتبار سے بھی۔ آپ پھر جائیے اور اللہ تعالیٰ سے تخفیف کی طلب کیجئے۔ آپ نے پھر حسب عادت جبرائیل علیہ السلام کی طرف دیکھا۔ جبرائیل علیہ السلام آپ کو پھر اوپر لے گئے، آپ نے اللہ تعالیٰ سے عرض کی کہ اے اللہ میری امت کے جسم، دل، کان آنکھیں اور بدن کمزور ہیں۔ ہم سے اور بھی تخفیف کر۔
اسی وقت اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) آپ نے جواب دیا «لبیک وسعدیک»، فرمایا: سن میری باتیں بدلتی نہیں جو میں نے اب مقرر کیا ہے یہی میں ام الکتاب میں لکھ چکا ہوں۔ یہ پانچ ہیں پڑھنے کے اعتبار سے اور پچاس ہیں ثواب کے اعتبار سے۔ جب آپ والپس آئے موسیٰ علیہ السلام نے کہا، کہو سوال منظور ہوا؟ آپ نے فرمایا۔ ہاں کمی ہو گئی یعنی پانچ کا ثواب پچاس کا مل گیا ہر نیکی کا ثواب دس گنا عطا فرمایا جانے کا وعدہ ہو گیا۔
موسیٰ علیہ السلام نے پھر فرمایا کہ میں بنی اسرائیل کا تجربہ کر چکا ہوں، انہوں نے اس سے بھی ہلکے احکام کو ترک کر دیا تھا، آپ پھر جائیے اور کمی طلب کیجئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا کہ اے کلیم اللہ میں گیا، آیا، اب تو مجھے کچھ شرم سی محسوس ہوتی ہے۔ آپ نے فرمایا اچھا پھر تشریف لے جائیے۔ بسم اللہ کیجئے۔ اب جب آپ جاگے تو آپ مسجد الحرام میں ہی تھے۔ [صحیح بخاری:7517]
صحیح بخاری شریف میں یہ حدیث کتاب التوحید میں بھی ہے اور صفۃ النبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میں بھی ہے۔
یہی روایت شریک بن عبداللہ بن ابو نمر سے مروی ہے لیکن انہوں نے اضطراب کر دیا ہے بوجہ اپنی کمزوری حافظہ کم بالکل ٹھیک ضبط نہیں رکھا۔ ان احادیث کے آخر میں اس کا بیان آئے گا۔ ان شاءاللہ تعالیٰ۔ بعض اسے واقعہ خواب بیان کرتے ہیں شاید اس جملے کی بنا پر جو اس کے آخر میں وارد ہے۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ»
حافظ ابوبکر بیہقی رحمہ اللہ اس حدیث کے اس جملے کو جس میں ہے کہ پھر اللہ تبارک وتعالیٰ قریب ہوا اور اتر آیا بس بقدر دو کمان کے ہو گیا۔ بلکہ اور نزدیک۔ شریک نامی راوی کی وہ زیادتی بتاتے ہیں جس میں وہ منفرد ہیں۔ اسی لیے بعض حضرات نے کہا کہ آپ نے اس رات اللہ عزوجل کو دیکھا۔
لیکن سیدہ عائشہ، سیدنا ابن مسعود، سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہم ان آیتوں کو اس پر محمول کرتے ہیں کہ آپ نے جرئیل علیہ السلام کو دیکھا۔ یہی زیادہ صحیح ہے اور امام بیہقی رحمہ اللہ کا فرمان بالکل حق ہے اور روایت میں ہے کہ جب آپ سے سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ نے سوال کیا کہ کیا آپ نے اللہ تعالیٰ کو دیکھا ہے؟ تو آپ نے فرمایا۔ وہ نور ہے، میں اسے کیسے دیکھ سکتا ہوں؟ اور روایت میں ہے کہ میں نے نور کو دیکھا ہے۔ [صحیح مسلم:178]
یہ جو سورۃ النجم میں ہے «ثُمَّ دَنَا فَتَدَلَّىٰ»” یعنی پھر وہ نزدیک ہوا اور اتر آیا۔ “[53-النجم:8] اس سے مراد جبرائیل ہیں جیسے کہ ان تینوں بزرگ صحابیوں رضوان اللہ علیہم اجمعین کا بیان ہے۔ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے تو کوئی اس آیت کی اس تفسیر میں ان کا مخالف نظر نہیں آتا۔
مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں میرے پاس براق لایا گیا۔ جو گدھے سے اونچا اور خچر سے نیچا تھا، جو ایک ایک قدم اتنی اتنی دور رکھتا تھا، جتنی دور اس کی نگاہ پہنچے۔ میں اس پر سوار ہوا وہ مجھے لے چلا، میں بیت المقدس پہنچا اور اسی کنڈے میں اسے باندھ دیا، جہاں انبیاء علیہ السلام باندھاہ کرتے تھے، پھر میں نے مسجد میں جا کر دو رکعت نماز ادا کی۔ جب وہاں سے نکلا تو جبرائیل علیہ السلام میرے پاس ایک برتن میں شراب لائے اور ایک میں دودھ۔ میں نے دودھ کو پسند کر لیا، جبرائیل نے فرمایا تم فطرت تک پہنچ گئے۔
پھر اوپر اولیٰ حدیث کی طرح آسمان اول پر پہنچنا، اس کا کھلوانا، فرشتوں کا دریافت کرنا، جواب پانا، ہر آسمان پر اسی طرح ہونا، بیان ہے۔ پہلے آسمان پر آدم علیہ السلام سے ملاقات ہوئی، جہنوں نے مرحبا کہا اور دعائے خیر کی۔ دوسرے آسمان پر یحییٰ اور عیسیٰ علیہما السلام سے ملاقات ہونے کا ذکر ہے، جو دونوں آپس میں خالہ زاد بھائی بھائی تھے۔ ان دونوں نے بھی آپ کو مرحبا کہا اور دعائے خیر دی، پھر تیسرے آسمان پر یوسف علیہ السلام سے ملاقات ہوئی، جنہیں آدھا حسن دیا گیا ہے، آب نے بھی مرحبا کہا، نیک دعا کی، پھر چوتھے آسمان پر ادریس علیہ السلام سے ملاقات ہوئی، جن کی بابت فرمان الٰہی ہے «وَرَفَعْنَاهُ مَكَانًا عَلِيًّا»[19-مريم:57] ” ہم نے اسے اونچی جگہ اٹھا لیا ہے۔ “
پانچویں آسمان پر ہارون علیہ السلام سے ملاقات ہوئی، چھٹے آسمان پر موسیٰ علیہ السلام سے ملاقات ہوئی، ساتویں آسمان پر ابراہیم علیہ السلام کو بیت المعمور سے تکیہ لگائے بیٹھے ہوئے دیکھا۔ بیت المعمور میں ہر روز ستر ہزار فرشتے جاتے ہیں، مگر جو آج گئے ان کی باری پھر قیامت تک نہیں آنے کی۔ پھر سدرۃ المنتہیٰ تک پہنچے، جس کے پتے ہاتھی کے کانوں کے برابر تھے اور جس کے پھل مٹکے جیسے۔
اسے امر رب نے ڈھک رکھا تھا، اس خوبی کا کوئی بیان نہیں کر سکتا۔ پھر وحی ہونے کا اور پچاس نمازوں کے فرض ہونے کا اور موسیٰ علیہ السلام کے مشورہ سے واپس جا جا کر کمی کرا کرا کر پانچ تک پہنچنے کا بیان ہے۔ اس میں ہر بار کے سوال پر پانچ کی کمی کا ذکر ہے۔ اس میں یہ بھی ہے کہ آخر میں آپ سے فرمایا کیا جو نیکی کا ارادہ کرے گو وہ عمل میں نہ آئے تاہم اسے ایک نیکی کا ثواب مل جاتا ہے اور اگر کرلے تو دس نیکیوں کا ثواب ملتا ہے اور گناہ کے صرف ارادے سے گناہ نہیں لکھا جاتا اور کر لینے سے ایک ہی گناہ لکھا جاتا ہے- [صحیح مسلم:162]
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جس رات آپ کو اسراء بیت اللہ سے بیت المقدس تک ہوا اسی رات معراج بھی ہوئی اور یہی حق ہے جس میں کوئی شک و شبہ نہیں۔ مسند احمد میں ہے کہ براق کی لگام بھی تھی اور زین بھی تھی۔ جب وہ سواری کے وقت کسمسایا تو جبرائیل علیہ السلام نے کہا کیا کر رہا ہے؟ واللہ تجھ پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے، آپ سے زیادہ بزرگ شخص کوئی سوار نہیں ہوا۔ پس براق پسینہ پسینہ ہو گیا۔ [سنن ترمذي:3131،قال الشيخ الألباني:صحیح]