اللہ تعالیٰ کی مدد اور اس کی تائید ہدایات اور اس کی توفیق ان کے ساتھ ہے، جن کے دل اللہ کے ڈر سے اور جن کے اعمال احسان کے جوہر سے مال مال ہوں۔ چنانچہ جہاد کے موقعہ پر اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کی طرف وحی اتاری تھے کہ آیت «اَنِّىْ مَعَكُمْ فَثَبِّتُوا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا سَاُلْقِيْ فِيْ قُلُوْبِ الَّذِيْنَ كَفَرُوا الرُّعْبَ فَاضْرِبُوْا فَوْقَ الْاَعْنَاقِ وَاضْرِبُوْا مِنْهُمْ كُلَّ بَنَانٍ»[8-الأنفال:12] ” میں تمہارے ساتھ ہوں پس تم ایمانداروں کو ثابت قدم رکھو “۔
اسی طرح موسیٰ علیہ السلام اور ہارون علیہما السلام سے فرمایا تھا آیت «لَا تَخَافَآ اِنَّنِيْ مَعَكُمَآ اَسْمَعُ وَاَرٰى»[20-طه:46] ” تم خوف نہ کھاؤ میں تمہارے ساتھ ہوں، دیکھتا سنتا ہوں “۔
غار میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے فرمایا تھا آیت «لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللّٰهَ مَعَنَا»[9-التوبہ:40] ” غم نہ کرو اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ ہے “۔ [صحیح بخاری:3652] پس یہ ساتھ تو خاص تھا۔ اور مراد اس سے تائید و نصرت الٰہی کا ساتھ ہونا ہے۔
اور عام ساتھ کا بیان آیت «وَهُوَ مَعَكُمْ أَيْنَ مَا كُنتُمْ وَاللَّـهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ»[57-الحديد:4] اور آیت «أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّـهَ يَعْلَمُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ مَا يَكُونُ مِن نَّجْوَىٰ ثَلَاثَةٍ إِلَّا هُوَ رَابِعُهُمْ وَلَا خَمْسَةٍ إِلَّا هُوَ سَادِسُهُمْ وَلَا أَدْنَىٰ مِن ذَٰلِكَ وَلَا أَكْثَرَ إِلَّا هُوَ مَعَهُمْ أَيْنَ مَا كَانُوا»[58-المجادلة:7] الخ اور آیت «وَمَا تَكُونُ فِي شَأْنٍ وَمَا تَتْلُو مِنْهُ مِن قُرْآنٍ وَلَا تَعْمَلُونَ مِنْ عَمَلٍ إِلَّا كُنَّا عَلَيْكُمْ شُهُودًا»[10-يونس:61] الخ میں ہے یعنی ” اللہ تعالیٰ تمہارے ساتھ ہے، جہاں بھی تم ہو اور وہ تمہارے اعمال دیکھنے والا ہے اور جو تین شخص کوئی سرگوشی کرنے لگیں ان میں چوتھا اللہ تعالیٰ ہوتا ہے اور پانچ میں چھٹا وہ ہوتا ہے اور اس سے کم و بیش میں بھی جہاں وہ ہوں، اللہ ان کے ساتھ ہوتا ہے اور تم کسی حال میں ہو یا تلاوت قرآن میں ہو یا تم اور کوئی کام میں لگے ہوئے ہو ہم تم پر شاہد ہوتے ہیں “۔
پس ان آیتوں میں ساتھ سے مراد سننے دیکھنے کا ساتھ ہے تقویٰ کے معنی ہیں حرام کاموں اور گناہ کے کاموں کو اللہ کے فرمان پر ترک کر دینے کے۔ اور احسان کے معنی ہیں پروردگار کی اطاعت و عبادت کو بجا لانا۔ جن لوگوں میں یہ دونوں صفتیں ہوں وہ اللہ تعالیٰ کی حفظ و امان میں رہتے ہیں، جناب باری ان کی تائید اور مدد فرماتا رہتا ہے۔ ان کے مخالفین اور دشمن ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے بلکہ اللہ تعالیٰ انہیں ان سب پر کامیابی عطا فرماتا ہے۔
ابن ابی حاتم میں محمد بن حاطب رحمہ اللہ سے مروی ہے ”سیدنا عثمان رضی اللہ عنہا ان لوگوں میں سے تھے جو باایمان پرہیزگار اور نیک کار ہیں۔“