سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے عروہ رحمہ اللہ دریافت کرتے ہیں کہ اس آیت سے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ طواف نہ کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں آپ رضی اللہ عنہا نے فرمایا بھتیجے تم صحیح نہیں سمجھے اگر یہ بیان مد نظر ہوتا تو «ان لا یطوف بھما» ہوتا۔ سنو آیت شریف کا شان نزول یہ ہے کہ مشلل [ ایک جگہ کا نام ہے ] کے پاس مناۃ بت تھا اسلام سے پہلے انصار اسے پوجتے تھے اور جو اس کے نام لبیک پکار لیتا وہ صفا مروہ کے طواف کرنے میں حرج سمجھتا تھا، اب بعد از اسلام ان لوگوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے صفا مروہ کے طواف کے حرج کے بارے میں سوال کیا تو یہ آیت اتری کہ اس میں کوئی حرج نہیں لیکن اسی کے بعد حضور علیہ السلام نے صفا مروہ کا طواف کیا اس لیے مسنون ہو گیا اور کسی کو اس کے ترک کرنے کا جواز نہ رہا [صحیح بخاری:1643] ابوبکر بن عبدالرحمٰن رحمہ اللہ نے جب یہ روایت سنی تو وہ کہنے لگے کہ بیشک یہ علمی بات ہے میں نے تو اس سے پہلے سنی ہی نہ تھی بعض اہل علم فرمایا کرتے تھے کہ انصار نے کہا تھا کہ ہمیں بیت اللہ کے طواف کا حکم ہے صفا مروہ کے طواف کا نہیں اس پر یہ آیت اتری ممکن ہے کہ شان نزول دونوں ہی ہوں، [صحیح بخاری:1643]
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ان دونوں پہاڑیوں کے درمیان بہت سے بت تھے اور شیاطین رات بھر اس کے درمیان گھومتے رہتے تھے اسلام کے بعد لوگوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہاں کے طواف کی بابت مسئلہ دریافت کیا جس پر یہ آیت اتری، «اساف» بت صفا پر تھا اور «نائلہ» مروہ پر، مشرک لوگ انہیں چھوتے اور چومتے تھے اسلام کے بعد لوگ اس سے الگ ہو گئے لیکن یہ آیت اتری جس سے یہاں کا طواف ثابت ہوا، سیرت محمد بن اسحاق رحمہ اللہ میں ہے کہ «اساف» اور «نائلہ» دو مرد و عورت تھے ان بدکاروں نے کعبہ میں زنا کیا اللہ تعالیٰ نے انہیں پتھر بنا دیا، قریش نے انہیں کعبہ کے باہر رکھ دیا تاکہ لوگوں کو عبرت ہو لیکن کچھ زمانہ کے بعد ان کی عبادت شروع ہو گئی اور صفا مروہ پر لا کر نصب کر دئے گئے اور ان کا طواف شروع ہو گیا،
صحیح مسلم کی ایک لمبی حدیث میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب بیت اللہ شریف کا طواف کر چکے تو رکن کو چھو کر باب الصفا سے نکلے اور آیت تلاوت فرما رہے تھے پھر فرمایا میں بھی شروع کروں گا اس سے جس سے اللہ تعالیٰ نے شروع کیا، ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم شروع کرو اس سے جس سے اللہ نے شروع کیا یعنی صفا سے چل کر مروہ جاؤ۔ [صحیح مسلم:1218] سیدہ حبیبہ بنت تجزاۃ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم صفا مروہ کا طواف کرتے تھے لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے آگے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پیچھے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم قدرے دوڑ لگا رہے تھے اور اس کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا تہمبند آپ کے ٹخنوں کے درمیان ادھر اھر ہو رہا تھا اور زبان سے فرماتے جاتے تھے لوگوں دوڑ کر چلو اللہ تعالیٰ نے تم پر سعی لکھ دی ہے [مسند احمد:421/6:صحیح] اسی کی ہم معنی ایک روایت اور بھی ہے۔
یہ حدیث دلیل ہے ان لوگوں کی جو صفا مروہ کی سعی کو حج کا رکن جانتے ہیں جیسے حضرت امام شافعی رحمہ اللہ اور ان کے موافقین کا مذہب ہے، حضرت امام احمد رحمہ اللہ سے بھی ایک روایت اسی طرح کی ہے حضرت امام مالک رحمہ اللہ کا مشہور مذہب بھی یہی ہے، بعض اسے واجب تو کہتے ہیں لیکن حج کا رکن نہیں کہتے اگر عمداً یا سہواً یا کوئی شخص اسے چھوڑ دے تو ایک جانور ذبح کرنا پڑے گا۔ حضرت امام احمد سے ایک روایت اسی طرح مروی ہے اور ایک اور جماعت بھی یہی کہتی ہے اور ایک قول میں یہ مستحب ہے۔
حضرت امام ابوحنیفہ، ثوری، شعبی، ابن سیرین رحمہ اللہ علیہم یہی کہتے ہیں۔ سیدنا انس ابن عمر اور ابن عباس رضی اللہ عنہم سے یہی مروی ہے حضرت امام مالک رحمہ اللہ سے عتیبہ کی بھی روایت ہے، ان کی دلیل آیت «فَمَن تَطَوَّعَ خَيْرًا فَهُوَ خَيْرٌ لَّهُ وَأَن تَصُومُوا خَيْرٌ لَّكُمْ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ»[ البقرہ: 184 ] ہے، لیکن پہلا قول ہی زیادہ راجح ہے اس لیے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کوہ صفا مروہ کا طواف کیا اور فرمایا احکام حج مجھ سے لو، [صحیح مسلم:1297] پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اس حج میں جو کچھ کیا وہ واجب ہو گیا اس کا کرنا ضروری ہے، اگر کوئی کام کسی خاص دلیل سے وجواب سے ہٹ جائے تو اور بات ہے۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔
علاوہ ازیں حدیث میں آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تم پرسعی لکھ دی یعنی فرض کر دی۔ [مسند احمد:421/6:صحیح بالشواھد] غرض یہاں بیان ہو رہا ہے کہ صفا مروہ کا طواف بھی اللہ تعالیٰ کے ان شرعی احکام میں سے ہے جنہیں ابراہیم علیہ السلام کو بجا آوری حج کے لیے سکھائے تھے یہ پہلے بیان ہو چکا ہے کہ اس کی اصل ہاجرہ کا یہاں سات پھیرے کرنا ہے جبکہ ابراہیم علیہ السلام نے انہیں ان کے چھوٹے بچے سمیت یہاں چھوڑ کر چلے گئے تھے اور ان کے پاس کھانا پینا ختم ہو چکا تھا اور بچے کی جان پر آ بنی تھی تب ام اسمٰعیل علیہ السلام نہایت بے قراری، بے بسی، ڈر، خوف اور اضطراب کے ساتھ ان پہاڑوں کے درمیان اپنا دامن پھیلائے اللہ سے بھیک مانگتی پھر رہی تھیں۔ یہاں تک کہ آپ کا غم و ہم، رنج و کرب، تکلیف اور دکھ دور ہوا۔
یہاں سے پھیرے کرنے والے حاجی کو بھی چاہیئے کہ نہایت ذلت و مسکنت خضوع و خشوع سے یہاں پھیرے کرے اور اپنی فقیری حاجت اور ذلت اللہ کے سامنے پیش کرے اور اپنی فقیری حاجت اور ذلت اللہ کے سامنے پیش کرے اور اپنے دل کی صلاحیت اور اپنے مال کی ہدایت اور اپنے گناہوں کی بخشش طلب کرے اور نقائص اور عیبوں سے پاکیزگی اور نافرمانیوں سے نفرت چاہے اور ثابت قدمی نیکی فلاح اور بہبودی کی دعا مانگے اور اللہ تعالیٰ سے عرض کرے کہ گناہوں اور برائیوں کی تنگی کی راہ سے ہٹا کر کمال و غفران اور نیکی کی توفیق بخشے جیسے کہ ہاجرہ کے حال کو اس مالک نے ادھر سے ادھر کر دیا۔ پھر ارشاد ہوتا ہے کہ جو شخص اپنی خوشی نیکی میں زیادتی کرے یعنی بجائے سات پھیروں کے آٹھ نو کرے نفلی حج و عمرے میں بھی صفا و مروہ کا طواف کرے اور بعض نے اسے عام رکھا ہے یعنی ہر نیکی میں زیادتی کرے۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ»
پھر فرمایا اللہ تعالیٰ قدر دان اور علم والا ہے، یعنی تھوڑے سے کام پر بڑا ثواب دیتا ہے اور جزا کی صحیح مقدار کو جانتا ہے نہ تو وہ کسی کے ثواب کو کم کرے نہ کسی پر ذرہ برابر ظلم کرے، ہاں نیکیوں کا ثواب بڑھا کر عطا فرماتا ہے اور اپنے پاس عظیم عنایت فرماتا ہے۔ [4-النساء:40] «فالحمد والشکر للہ»