اللہ تعالیٰ اپنے کمال علم اور کمال قدرت کو بیان فرما رہا ہے کہ ” زمین آسمان کا غیب وہی جانتا ہے، کوئی نہیں جو غیب دان ہو اللہ جسے چاہے، جس چیز پر چاہے، اطلاع دیدے۔ ہر چیز اس کی قدرت میں ہے نہ کوئی اس کا خلاف کر سکے۔ نہ کوئی اسے روک سکے جس کام کا جب ارادہ کرے، قادر ہے پورا ہو کر ہی رہتا ہے “۔
«وَمَا أَمْرُنَا إِلَّا وَاحِدَةٌ كَلَمْحٍ بِالْبَصَرِ»[54-القمر:50] ” آنکھ بند کر کے کھولنے میں تو تمہیں کچھ دیر لگتی ہو گی لیکن حکم الٰہی کے پورا ہونے میں اتنی دیر بھی نہیں لگتی “۔ قیامت کا آنا بھی اس پر ایسا ہی آسان ہے، وہ بھی حکم ہوتے ہی آ جائے گی۔
«مَّا خَلْقُكُمْ وَلَا بَعْثُكُمْ إِلَّا كَنَفْسٍ وَاحِدَةٍ»[31-لقمان:28] ” ایک کا پیدا کرنا اور سب کا پیدا کرنا اس پر یکساں ہے “۔ اللہ کا احسان دیکھو کہ اس نے لوگوں کو ماؤں کے پیٹوں سے نکالا یہ محض نادان تھے پھر انہیں کان دئیے جس سے وہ سنیں، آنکھیں دیں جس سے دیکھیں، دل دئیے جس سے سوچیں اور سمجھیں۔ عقل کی جگہ دل ہے اور دماغ بھی کہا گیا ہے۔
عقل سے ہی نفع نقصان معلوم ہوتا ہے یہ قویٰ اور حواس انسان کو بتدریج تھوڑے تھوڑے ہو کر ملتے ہیں عمر کے ساتھ ساتھ اس کی بڑھوتری بھی ہوتی رہتی ہے۔ یہاں تک کہ کمال کو پہنچ جائیں۔ یہ سب اس لیے ہے کہ انسان اپنی ان طاقتوں کو اللہ کی معرفت اور عبادت میں لگائے رہے۔
صحیح بخاری میں حدیث قدسی ہے کہ جو میرے دوستوں سے دشمنی کرتا ہے وہ مجھ سے لڑائی کا اعلان کرتا ہے۔ میرے فرائض کی بجا آوری سے جس قدر بندہ میری قربت حاصل کر سکتا ہے اتنی کسی اور چیز سے نہیں کر سکتا۔ نوافل بکثرت پڑھتے پڑھتے بندہ میرے نزدیک اور میرا محبوب ہو جاتا ہے۔ جب میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں تو میں ہی اس کے کان بن جاتا ہوں، جن سے وہ سنتا ہے اور اس کی نگاہ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے اور اس کے ہاتھ بن جاتا ہوں جن سے وہ تھامتا ہے اور اس کے پیر بن جاتا ہوں جن سے وہ چلتا ہے۔ وہ اگر مجھ سے مانگے میں دیتا ہوں، اگر دعا کرے میں قبول کرتا ہوں، اگر پناہ چاہے میں پناہ دیتا ہوں اور مجھے کسی کام کے کرنے میں اتنا تردد نہیں ہوتا جتنا مومن کی روح کے قبض کرنے میں موت کو ناپسند کرتا ہے۔ میں اسے ناراض کرنا نہیں چاہتا اور موت ایسی چیز ہی نہیں جس سے کسی ذی روح کو نجات مل سکے ۔ [صحیح بخاری:6502]
اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جب مومن اخلاص اور اطاعت میں کامل ہو جاتا ہے تو اس کے تمام افعال محض اللہ کے لیے ہو جاتے ہیں وہ سنتا ہے اللہ کے لیے، دیکھتا ہے اللہ کے لیے، یعنی شریعت کی باتیں سنتا ہے، شریعت نے جن چیزوں کا دیکھنا جائز کیا ہے، انہی کو دیکھتا ہے، اسی طرح اس کا ہاتھ بڑھانا، پاؤں چلانا بھی اللہ کی رضا مندی کے کاموں کے لیے ہی ہوتا ہے۔ اللہ پر اس کا بھروسہ رہتا ہے اسی سے مدد چاہتا ہے، تمام کام اس کے اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کے ہی ہوتے ہیں۔
اس لیے بعض غیر صحیح احادیث میں اس کے بعد یہ بھی آیا ہے کہ پھر وہ میرے ہی لیے سنتا ہے اور میرے ہی لیے دیکھتا ہے اور میرے لیے پکڑتا ہے اور میرے لیے ہی چلتا پھرتا ہے ۔
آیت میں بیان ہے کہ ” ماں کے پیٹ سے وہ نکالتا ہے، کان، آنکھ، دل، دماغ وہ دیتا ہے تاکہ تم شکر ادا کرو “ اور آیت میں فرمان ہے «قُلْ هُوَ الَّذِي أَنشَأَكُمْ وَجَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالْأَبْصَارَ وَالْأَفْئِدَةَ قَلِيلًا مَّا تَشْكُرُونَ قُلْ هُوَ الَّذِي ذَرَأَكُمْ فِي الْأَرْضِ وَإِلَيْهِ تُحْشَرُونَ»[67-الملك:23] ، یعنی ” اللہ ہی نے تمہیں پیدا کیا ہے اور تمہارے لیے کان اور آنکھیں اور دل بنائے ہیں لیکن تم بہت ہی کم شکر گزاری کرتے ہو، اسی نے تمہیں زمین میں پھیلا دیا ہے اور اسی کی طرف تمہارا حشر کیا جانے والا ہے “۔
پھر اللہ پاک رب العالمین اپنے بندوں سے فرماتا ہے کہ ” ان پرندوں کی طرف دیکھو جو آسمان و زمین کے درمیان کی فضا میں پرواز کرتے پھرتے ہیں، انہیں پروردگار ہی اپنی قدرت کاملہ سے تھامے ہوئے ہے۔ یہ قوت پرواز اسی نے انہیں دے رکھی ہے اور ہواؤں کو ان کا مطیع بنا رکھا ہے۔ سورۃ الملک میں بھی یہی فرمان ہے کہ «أَوَلَمْ يَرَوْا إِلَى الطَّيْرِ فَوْقَهُمْ صَافَّاتٍ وَيَقْبِضْنَ مَا يُمْسِكُهُنَّ إِلَّا الرَّحْمَـٰنُ إِنَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ بَصِيرٌ»[67-الملك:19] ” کیا وہ اپنے سروں پر اڑتے ہوئے پرندوں کو نہیں دیکھتے؟ جو پر کھولے ہوئے ہیں اور پر سمیٹے ہوئے بھی ہیں انہیں بجز اللہ رحمان و رحیم کے کون تھامتا ہے؟ وہ اللہ تمام مخلوق کو بخوبی دیکھ رہا ہے “۔
یہاں بھی خاتمے پر فرمایا کہ ” اس میں ایمانداروں کے لیے بہت سے نشان ہیں “۔