تمام بندوں پر قبضہ اللہ تعالیٰ کا ہے، وہی انہیں عدم وجود میں لایا ہے، وہی انہیں پھر فوت کرے گا بعض لوگوں کو بہت بڑی عمر تک پہنچاتا ہے کہ وہ پھر سے بچوں جیسے ناتواں بن جاتے ہیں۔
سیدنا علی رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں ”پچھتر سال کی عمر میں عموماً انسان ایسا ہی ہو جاتا ہے طاقت ختم ہو جاتی ہے حافظہ جاتا رہتا ہے۔ علم کی کمی ہو جاتی ہے عالم ہونے کے بعد بےعلم ہو جاتا ہے۔“
صحیح بخاری شریف میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی دعا میں فرماتے تھے «اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَأَعُوذ بِك مِنْ الْبُخْل وَالْكَسَل وَالْهَرَم وَأَرْذَل الْعُمُر وَعَذَاب الْقَبْر وَفِتْنَة الدَّجَّال وَفِتْنَة الْمَحْيَا وَالْمَمَات» یعنی اے اللہ میں بخیلی سے، عاجزی سے، بڑھاپے سے، ذلیل عمر سے، قبر کے عذاب سے، دجال کے فتنے سے، زندگی اور موت کے فتنے سے تیری پناہ طلب کرتا ہوں ۔ [صحیح بخاری:4707]
زہیر بن ابوسلمہ نے بھی اپنے مشہور قصیدہ معلقہ میں اس عمر کو رنج و غم کا مخزن و منبع بتایا ہے۔