تفسير ابن كثير



انبیاء کی تکذیب عذاب الٰہی کا سبب ہے ٭٭

حکم ہوتا ہے کہ ” اے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم آپ اعلان کر دیجئیے کہ میں تمام لوگوں کو عذاب الٰہی سے صاف صاف ڈرا دینے والا ہوں۔ یاد رکھو میرے جھٹلانے والے بھی اگلے نبیوں کے جھٹلانے والوں کی طرح عذاب الٰہی کے شکار ہوں گے “۔

«الْمُقْتَسِمِينَ» سے مراد قسمیں کھانے والے ہیں جو انبیاء علیہ السلام کی تکذیب اور ان کی مخالفت اور ایذاء دہی پر آپس میں قسما قسمی کر لیتے تھے جیسے کہ قوم صالح کا بیان قرآن حکیم میں ہے کہ «قَالُوا تَقَاسَمُوا بِاللَّـهِ لَنُبَيِّتَنَّهُ» [27-النمل:49] ‏‏‏‏ ” ان لوگوں نے اللہ کی قسمیں کھا کر عہد کیا کہ راتوں رات صالح علیہ السلام اور ان کے گھرانے کو ہم موت کے گھاٹ اتار دیں گے “۔

اسی طرح قرآن میں ہے کہ «وَأَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمَانِهِمْ لَا يَبْعَثُ اللَّهُ مَنْ يَمُوتُ» [16-النحل:38] ‏‏‏‏ ” وہ قسمیں کھا کھا کر کہتے تھے کہ مردے پھر جینے کے نہیں“ الخ۔

اور جگہ ان کا اس بات پر قسمیں کھانے کا ذکر ہے کہ «أَهَـٰؤُلَاءِ الَّذِينَ أَقْسَمْتُمْ لَا يَنَالُهُمُ اللَّـهُ بِرَحْمَةٍ» [7-الأعراف:49] ‏‏‏‏ ” مسلمانوں کو کبھی کوئی رحمت نہیں مل سکتی “۔ الغرض جس چیز کو نہ ما نتے اس پر قسمیں کھانے کی انہیں عادت تھی اس لیے انہیں کہا گیا ہے۔

بخاری و مسلم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ میری اور ان ہدایات کی مثال جسے دے کر اللہ نے مجھے بھیجا ہے اس شخص کی سی ہے جو اپنی قوم کے پاس آ کر کہے کہ لوگو میں نے دشمن کا لشکر اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے دیکھو ہوشیار ہو جاؤ بچنے اور ہلاک نہ ہونے کے سامان کر لو۔ اب کچھ لوگ اس کی بات مان لیتے ہیں اور اسی عرصہ میں چل پڑتے ہیں اور دشمن کے پنجے سے بچ جاتے ہیں لیکن بعض لوگ اسے جھوٹا سمجھتے ہیں اور وہیں بے فکری سے پڑے رہتے ہیں کہ ناگاہ دشمن کا لشکر آ پہنچتا ہے اور گھیر گھار کر انہیں قتل کر دیتا ہے پس یہ ہے مثال میرے ماننے والوں کی اور نا ماننے والوں کی ۔ [صحیح بخاری:7283] ‏‏‏‏

ان لوگوں نے اللہ کی ان کتابوں کو جو ان پر اتری تھیں پارہ پارہ کر دیا جس مسئلے کو جی چاہا مانا جس سے دل گھبرایا چھوڑ دیا۔ بخاری شریف میں ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اس سے مراد اہل کتاب ہیں کہ کتاب کے بعض حصے کو مانتے تھے اور بعض کو نہیں مانتے تھے ۔ [صحیح بخاری:4705] ‏‏‏‏

یہ بھی مروی ہے کہ مراد اس سے کفار کا کتاب اللہ کی نسبت یہ کہنا ہے کہ یہ جادو ہے، یہ کہانت ہے، یہ اگلوں کی کہانی ہے، اس کا کہنے والا جادوگر ہے، مجنوں ہے، کاہن ہے وغیرہ۔

سیرت ابن اسحاق میں ہے کہ ولید بن مغیرہ کے پاس سرداران قریش جمع ہوئے حج کا موسم قریب تھا اور یہ شخص ان میں بڑا شریف اور ذی رائے سمجھا جاتا تھا اس نے ان سب سے کہا کہ دیکھو حج کے موقع پر دور دراز سے تمام عرب یہاں جمع ہوں گے۔ تم دیکھ رہے ہو کہ تمہارے اس ساتھی نے ایک اودھم مچا رکھا ہے لہٰذا اس کی نسبت ان بیرونی لوگوں سے کیا کہا جائے یہ بتاؤ اور کسی ایک بات پر اجماع کرلو کہ سب وہی کہیں۔ ایسا نہ ہو کوئی کچھ کہے کوئی کچھ کہے اس سے تو تمہارا اعتبار اٹھ جائے گا اور وہ پردیسی تمہیں جھوٹا خیال کریں گے۔

انہوں نے کہا ابو عبد شمس آپ ہی کوئی ایسی بات تجویز کر دیجئیے اس نے کہا پہلے تم اپنی تو کہو تاکہ مجھے بھی غور و خوض کا موقعہ ملے انہوں نے کہا پھر ہماری رائے میں تو ہر شخص اسے کاہن بتلائے۔ اس نے کہا یہ تو واقعہ کے خلاف ہے لوگوں نے کہا پھر مجنوں بالکل درست ہے۔ اس نے کہا یہ بھی غلط ہے کہا اچھا تو شاعر کہیں؟ اس نے جواب دیا کہ وہ شعر جانتا ہی نہیں کہا اچھا پھر جادوگر کہیں؟ کہا اسے جادو سے مس بھی نہیں اس نے کہا سنو واللہ اس کے قول میں عجب مٹھاس ہے ان باتوں میں سے تم جو کہو گے دنیا سمجھ لے گی کہ محض غلط اور سفید جھوٹ ہے۔ گو کوئی بات نہیں بنتی لیکن کچھ کہنا ضرور ہے اچھا بھائی سب اسے جادوگر بتلائیں۔ اس امر پر یہ مجمع برخاست ہوا۔ اور اسی کا ذکر ان آیتوں میں ہے۔



https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.