تفسير ابن كثير



قرآن عظیم سبع مثانی اور ایک لازوال دولت ٭٭

” اے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہم نے جب قرآن عظیم جیسی لازوال دولت تجھے عنایت فرما رکھی ہے تو تجھے نہ چاہیئے کہ کافروں کے دنیوی مال و متاع اور ٹھاٹھ باٹھ للچائی ہوئی نظروں سے دیکھے۔ یہ تو سب فانی ہے اور صرف ان کی آزمائش کے لیے چند روزہ انہیں عطا ہوا ہے۔ ساتھ ہی تجھے ان کے ایمان نہ لانے پر صدمے اور افسوس کی بھی چنداں ضرورت نہیں “۔ «وَاخْفِضْ جَنَاحَكَ لِمَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ» [26-الشعراء:215] ‏‏‏‏ ” ہاں تجھے چاہیئے کہ نرمی، خوش خلقی، تواضع اور ملنساری کے ساتھ مومنوں سے پیش آتا رہے “۔

جیسے ارشاد ہے آیت «لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِّنْ أَنفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُم بِالْمُؤْمِنِينَ رَءُوفٌ رَّحِيمٌ» [9-التوبة:128] ‏‏‏‏، ” لوگو تمہارے پاس تم میں سے ہی ایک رسول آ گئے ہیں جن پر تمہاری تکلیف شاق گزرتی ہے جو تمہاری بہبودی کے دل سے خواہاں ہیں جو مسلمانوں پر پرلے درجے کا شفیق و مہربان ہے “۔

سبع مثانی کی نسبت ایک قول تو یہ ہے کہ اس سے مراد قرآن کریم کی ابتداء کی سات لمبی سورتیں ہیں سورۃ البقرہ، آل عمران، نساء، مائدہ، انعام، اعراف اور یونس۔ اس لیے کہ ان سورتوں میں فرائض کا، حدود کا، قصوں کا اور احکام کا خاص طریق پر بیان ہے اسی طرح مثالیں، خبریں اور عبرتیں بھی زیادہ ہیں۔

بعض نے سورۃ الاعراف تک کی چھ سورتیں گنوا کر ساتویں سورت انفال اور براۃ کو بتلایا ہے ان کے نزدیک یہ دونوں سورتیں مل کر ایک ہی سورت ہے۔

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ صرف موسیٰ علیہ السلام کو چھ ملی تھیں لیکن جب آپ علیہ السلام نے تختیاں گرا دیں تو دو اٹھ گئیں اور چار رہ گئیں۔

ایک قول ہے قرآن عظیم سے مراد بھی یہی ہیں۔ زیادہ کہتے ہیں میں نے تجھے سات جز دیئے ہیں۔ حکم، منع، بشارت، ڈر اور مثالیں، نعمتوں کا شمار اور قرآنی خبریں۔

دوسرا قول یہ ہے کہ مراد سبع مثانی سے سورۃ فاتحہ ہے جس کی سات آیتیں ہیں۔ یہ سات آیتیں «بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ» سمیت ہیں۔ ان کے ساتھ اللہ نے تمہیں مخصوص کیا ہے یہ کتاب کا شروع ہیں۔ اور ہر رکعت میں دہرائی جاتی ہیں۔ خواہ فرض نماز ہو خواہ نفل نماز ہو۔

امام ابن جریر رحمہ اللہ اسی قول کو پسند فرماتے ہیں اور اس بارے میں جو حدیثیں مروی ہیں ان سے اس پر استدلال کرتے ہیں ہم نے وہ تمام احادیث فضائل سورۃ فاتحہ کے بیان میں اپنی اس تفسیر کے اول میں لکھ دی ہیں «فالْحَمْدُ لِلَّـه» ۔

امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ نے اس جگہ دو حدیثیں وارد فرمائی ہیں۔ ایک میں ہے ابوسعید بن معلی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نماز پڑھ رہا تھا جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آئے مجھے بلایا لیکن میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس نہ آیا نماز ختم کرکے پہنچا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ اسی وقت کیوں نہ آئے؟ میں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں نماز میں تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان نہیں آیت «يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَجِيبُوا لِلَّـهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُمْ» [8-الانفال:24] ‏‏‏‏ یعنی ” ایمان والو اللہ اور اس کے رسول کی بات مان لو جب بھی وہ تمہیں پکاریں “۔ سن اب میں تجھے مسجد میں سے نکلنے سے پہلے ہی قرآن کریم کی بہت بڑی سورت بتلاؤں گا۔ تھوڑی دیر میں جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے جانے لگے تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا وعدہ یاد دلایا آپ نے فرمایا وہ سورۃ «الْحَمْدُ لِلَّـهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ» کی ہے یہی سبع مثانی ہے اور یہی بڑا قرآن ہے جو میں دیا گیا ہوں ۔ [صحیح بخاری:4803] ‏‏‏‏

دوسری حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ ام القرآن یعنی سورۃ فاتحہ سبع مثانی اور قرآن عظیم ہے ۔ [صحیح بخاری:4804] ‏‏‏‏

پس صاف ثابت ہے کہ سبع مثانی اور قرآن عظیم سے مراد سورۃ فاتحہ لیکن یہ بھی خیال رہے کہ اس کے سوا اور بھی یہی ہے اس کے خلاف یہ حدیثیں نہیں۔ جب کہ ان میں بھی یہ حقیقت پائی جائے جیسے کہ پورے قرآن کریم کا وصف بھی اس کے مخالف نہیں۔

جیسے فرمان الٰہی ہے آیت «اللَّـهُ نَزَّلَ أَحْسَنَ الْحَدِيثِ كِتَابًا مُّتَشَابِهًا مَّثَانِيَ» [39-الزمر:23] ‏‏‏‏ پس اس آیت میں سارے قرآن کو مثانی کہا گیا ہے، اور متشابہ بھی۔

پس وہ ایک طرح سے مثانی ہے اور دوسری وجہ سے متشابہ۔ اور قرآن عظیم بھی یہی ہے جیسے کہ اس روایت سے ثابت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال ہوا کہ تقویٰ پر جس مسجد کی بنا ہے وہ کون ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی مسجد کی طرف اشارہ کیا ۔ [صحیح مسلم:1398] ‏‏‏‏ حالانکہ یہ بھی ثابت ہے کہ آیت مسجد قباء کے بارے میں اتری ہے۔

پس قاعدہ یہی ہے کہ کسی چیز کا ذکر دوسری چیز سے انکار نہیں ہوتا۔ جب کہ وہ بھی وہی صفت رکھتی ہو۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ»

پس تجھے ان کی ظاہری ٹیپ ٹاپ سے بے نیاز رہنا چاہیئے اسی فرمان کی بنا پر امام ابن عیینہ رحمتہ اللہ علیہ نے ایک صحیح حدیث جس میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہم میں سے وہ نہیں جو قرآن کے ساتھ تغنی نہ کرے [صحیح بخاری:7527] ‏‏‏‏ کی تفسیر یہ لکھی ہے کہ قرآن کو لے کر اس کے ماسوا سے دست بردار اور بے پرواہ نہ ہو جائے وہ مسلمان نہیں۔

گو یہ تفسیر بالکل صحیح ہے لیکن اس حدیث سے یہ مقصود نہیں حدیث کا صحیح مقصد اس ہماری تفسیر کے شروع میں ہم نے بیان کر دیا ہے۔ ابن ابی حاتم میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں ایک مرتبہ مہمان آئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں کچھ نہ تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک یہودی سے رجب کے وعدے پر آٹا ادھار منگوایا لیکن اس نے کہا بغیر کسی چیز کو رھن رکھے میں نہیں دوں گا اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: واللہ میں امین ہوں اور زمین والوں میں بھی اگر یہ مجھے ادھار دیتا یا میرے ہاتھ فروخت کر دیتا تو میں اسے ضرور ادا کرتا پس آیت «لَا تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ» الخ نازل ہوئی اور گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دلجوئی کی گئی ۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:235/16:ضعیف] ‏‏‏‏

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں انسان کا ممنوع ہے کہ کسی کے مال و متاع کو للچائی ہوئی نگاہوں سے تاکے۔ یہ جو فرمایا کہ ان کی جماعتوں کو جو فائدہ ہم نے دے رکھا ہے اس سے مراد کفار کے مالدار لوگ ہیں۔‏‏‏‏



https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.