تفسير ابن كثير



قبر کا عذاب ٭٭

سیدنا براء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اسی آیت سے قبر کے عذاب کا ثبوت ملتا ہے۔ سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ اسی آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں مراد اس سے قبر کے سوالوں کے جواب میں مومن کو استقامت کا ملنا ہے۔‏‏‏‏

مسند عبد بن حمید میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جب بندہ قبر میں رکھا جاتا ہے لوگ منہ پھیرتے ہیں ابھی ان کی واپسی کی چال کی جوتیوں کی آہٹ اس کے کانوں ہی میں ہے جو دو فرشتے اس کے پاس پہنچ کر اسے بٹھا کر پوچھتے ہیں کہ اس شخص کے بارے میں تو کیا کہتا ہے مومن جواب دیتا ہے کہ میری گواہی ہے کہ وہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں تو اسے کہا جاتا ہے کہ دیکھ جہنم میں تیرا یہ ٹھکانا تھا۔ لیکن اب اسے بدل کر اللہ نے جنت کی یہ جگہ تجھے عنایت فرمائی ہے ۔ فرماتے ہیں کہ اسے دونوں جگہ نظر آتی ہیں ۔ حضرت قتادہ رحمہ اللہ کا فرمان ہے کہ اس کی قبر ستر گز چوڑی کر دی جاتی ہے اور قیامت تک سر سبزی سے بھری رہتی ہے۔‏‏‏‏ [صحیح بخاری:1338] ‏‏‏‏

مسند احمد میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اس امت کی آزمائش ان کی قبروں میں سے ہوتی ہے۔ اس میں یہ بھی ہے کہ مومن اس وقت آرزو کرتا ہے کہ مجھے چھوڑ دو میں اپنے لوگوں کو یہ خوشخبری سنا دوں وہ کہتے ہیں ٹھہر جاؤ اس میں یہ بھی ہے کہ منافق کو بھی اس کی دونوں جگہیں دکھا دی جاتی ہیں ۔ فرماتے ہیں کہ ہر شخص جس پر مرا ہے اسی پر اٹھایا جاتا ہے۔ مومن اپنے ایمان پر منافق اپنے نفاق پر ۔ [مسند احمد:346/3:ضعیف] ‏‏‏‏

مسند احمد کی روایت میں ہے کہ فرشتہ جو آتا ہے اس کے ہاتھ میں لوہے کا ہتھوڑا ہوتا ہے مومن اللہ کی معبودیت اور توحید کی اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عبدیت اور رسالت کی گواہی دیتا ہے اس میں یہ بھی ہے کہ اپنا جنت کا مکان دیکھ کر اس میں جانا چاہتا ہے۔ لیکن اسے کہا جاتا ہے ابھی یہیں آرام کرو ۔ اس کے آخر میں ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب ایک فرشتے کو ہاتھ میں گرز لیے دیکھیں گے تو حواس کیسے قائم رہیں گے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی آیت پڑھی ۔ [مسند احمد:3/3:حسن] ‏‏‏‏ یعنی اللہ کی طرف سے انہیں ثابت قدمی ملتی ہے۔

اور حدیث میں ہے کہ روح نکلنے کے وقت مومن سے کہا جاتا ہے کہ اے اطمینان والی روح جو پاک جسم میں تھی۔ نکل تعریفوں والی ہو کر اور خوش ہو جا۔ راحت و آرام اور پھل پھول اور رحیم و کریم اللہ کی رحمت کے ساتھ۔ اس میں ہے کہ آسمان کے فرشتے اس روح کو مرحبا کہتے ہیں اور یہی خوشخبری سناتے ہیں۔ اس میں ہے کہ برے انسان کی روح کو کہا جاتا ہے کہ اے خبیث روح جو خبیث جسم میں تھی نکل بری بن کر اور تیار ہو جا آگ جیسا پانی پینے کے لیے اور لہو پیپ کھانے کے لیے اور اسی جیسے اور بےشمار عذابوں کے لیے اس میں ہے کہ آسمان کے فرشتے اس کے لیے دروازہ نہیں کھولتے اور کہتے ہیں بری ہو کر مذمت کے ساتھ لوٹ جا تیرے لیے دروازے نہیں کھلیں گے ۔ [سنن ابن ماجه:4262،قال الشيخ الألباني:صحیح] ‏‏‏‏

اور روایت میں ہے کہ آسمانی فرشتے نیک روح کے لیے کہتے ہیں اللہ تجھ پر رحمت کرے اور اس جسم پر بھی جس میں تو تھی۔ یہاں تک کہ اسے اللہ عزوجل کے پاس پہنچاتے ہیں وہاں سے ارشاد ہوتا ہے کہ ” اسے آخری مدت تک کے لیے لے جاؤ “۔ اس میں ہے کہ کافر کی روح کی بدبو کا بیان کرتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی چادر مبارک اپنی ناک پر رکھ لی

اور روایت میں ہے کہ رحمت کے فرشتے مومن کی روح کے لیے جنتی سفید ریشم لے کر اترتے ہیں۔ ایک ایک کے ہاتھ سے اس روح کو لینا چاہتا ہے۔ جب یہ پہلے کے مومنوں کی ارواح سے ملتی ہے۔ تو جیسے کوئی نیا آدمی سفر سے آئے اور اس کے گھر والے خوش ہوتے ہیں اس سے زیادہ یہ روحیں اس روح سے مل کر راضی ہوتی ہیں پھر پوچھتی ہیں کہ فلاں کا کیا حال ہے؟ لیکن ان میں سے بعض کہتے ہیں کہ ابھی سوال جواب نہ کرو ذرا آرام تو کر لینے دو۔ یہ تو غم سے ابھی ہی چھوٹی ہے۔ لیکن وہ جواب دیتی ہے کہ وہ تو مر گیا کیا تمھارے پاس نہیں پہنچا وہ کہتے ہیں چھوڑو اس کے ذکر کو وہ اپنی اماں ہاویہ میں گیا ۔ [مستدرک حاکم353/1:صحیح] ‏‏‏‏

اور روایت میں ہے کہ کافر کی روح کو جب زمین کے دروازے کے پاس لاتے ہیں تو وہاں داروغہ فرشتے اس کی بدبو سے گھبراتے ہیں آخر اسے سب سے نیچے کی زمین میں پہنچاتے ہیں ۔

سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مومنوں کی روحیں جابیہ میں اور کافروں کی روحیں برھوت نامی حضر موت کے قید خانے میں جمع رہتی ہیں، اس کی قبر بہت تنگ ہو جاتی ہے۔‏‏‏‏

ترمذی میں ہے کہ میت کے قبر میں رکھے جانے کے بعد اس کے پاس دو سیاہ فام کیری آنکھوں والے فرشتے آتے ہیں ایک منکر دوسرا نکیر۔ اس کے جواب کو سن کر وہ کہتے ہیں کہ ہمیں علم تھا کہ تم ایسے ہی جواب دو گے پھر اس کی قبر کشادہ کر دی جاتی ہے اور نورانی بنا دی جاتی ہے۔ اور کہا جاتا ہے سوجا۔ یہ کہتا ہے کہ میں تو اپنے گھر والوں سے کہوں گا۔ لیکن وہ دونوں کہتے ہیں کہ دلہن کی سی بے فکری کی نیند سو جا۔ جسے اس کے اہل میں سے وہی جگاتا ہے جو اسے سب سے زیادہ پیارا ہو۔ یہاں تک کہ اللہ خود اسے اس خواب گاہ سے جگائے۔

منافق جواب میں کہتا ہے کہ لوگ جو کچھ کہتے تھے میں بھی کہتا رہا لیکن جانتا نہیں۔ وہ کہتے ہیں ہم تو جانتے ہی تھے کہ تیرا یہ جواب ہوگا۔ اسی وقت زمین کو حکم دیا جاتا ہے کہ سمٹ جا۔ وہ سمٹتی ہے یہاں تک کہ اس پسلیاں ادھر ادھر گھس جاتی ہیں پھر اسے عذاب ہوتا رہتا ہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ قیامت قائم کرے اور اسے اس کی قبر سے اٹھائے
۔ [سنن ترمذي:1071،قال الشيخ الألباني:صحیح] ‏‏‏‏

اور حدیث میں ہے کہ مومن کے جواب پر کہا جاتا ہے کہ اسی پر تو جیا اسی پر تیری موت ہوئی اور اسی پر تو اٹھایا جائے گا ۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:20760] ‏‏‏‏

ابن جریر میں فرمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہے اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ میت تمہاری جوتیوں کی آہٹ سنتی ہے جب کہ تم اسے دفنا کر واپس لوٹتے ہو اگر وہ ایمان پر مرا ہے تو نماز اس کے سرہانے ہوتی ہے زکوٰۃ دائیں جانب ہوتی ہے روزہ بائیں طرف ہوتا ہے۔ نیکیاں مثلاً صدقہ خیرات صلہ رحمی بھلائی لوگوں سے احسان وغیرہ اس کے پیروں کی طرف ہوتے ہیں جب اس کے سر کی طرف سے کوئی آتا ہے تو نماز کہتی ہے یہاں سے جانے کی جگہ نہیں۔ دائیں طرف سے زکوٰۃ روکتی ہے۔ بائیں طرف سے روزہ۔ پیروں کی طرف سے اور نیکیاں۔ پس اس سے کہا جاتا ہے بیٹھ جاؤ۔ وہ بیٹھ جاتا ہے اور اسے ایسا معلوم دیتا ہے کہ گویا سورج ڈوبنے کے قریب ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ دیکھو جو ہم پوچھیں اس کا جواب دو۔ وہ کہتا ہے تم چھوڑو پہلے میں نماز ادا کر لوں۔ وہ کہتے ہیں وہ تو تو کرے گا ہی۔ ابھی تو ہمیں ہمارے سوالوں کا جواب دے۔

وہ کہتا ہے اچھا تم کیا پوچھتے ہو؟ وہ کہتے ہیں اس شخص کے بارے میں تو کیا کہتا ہے اور کیا شہادت دیتا ہے۔ وہ پوچھتا ہے کیا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں؟ جواب ملتا ہے کہ ہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے بارے میں یہ کہتا ہے کہ میری گواہی ہے کہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے پاس سے ہمارے پاس دلیلیں لے کر آئے ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سچا مانا۔ پھر اس سے کہا جاتا ہے کہ تو اسی پر زندہ رکھا گیا اور اسی پر مرا اور ان شاءاللہ اسی پر دوبارہ اٹھایا جائے گا۔ پھر اس کی قبر ستر ہاتھ پھیلا دی جاتی ہے اور نورانی کر دی جاتی ہے اور جنت کی طرف ایک دروازہ کھول دیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے دیکھ یہ ہے تیرا اصلی ٹھکانا۔

اب تو اسے خوشی اور راحت ہی راحت ہوتی ہے۔ پھر اس کی روح پاک روحوں میں سبز پرندوں کے قالب میں جنتی درختوں میں رہتی ہے۔ اور اس کا جسم جس سے اس کی ابتداء کی گئی تھی اسی طرف لوٹا دیا جاتا ہے۔ یعنی مٹی کی طرف یہی اس آیت کا مطلب ہے۔ [عبدالرزاق،6703:حسن] ‏‏‏‏

اور روایت میں ہے کہ موت کے وقت کی راحت و نور کو دیکھ کر مومن اپنی روح کے نکل جانے کی تمنا کرتا ہے اور اللہ کو بھی اسی کی ملاقات محبوب ہوتی ہے۔ جب اس کی روح آسمان پر چڑھ جاتی ہے تو اس کے پاس مومنوں کی اور روحیں آتی ہیں اور اپنی جان پہچان کے لوگوں کی بابت اس سے سوالات کرتے ہیں۔ اگر یہ کہتا ہے کہ فلاں تو زندہ ہے تو خیر۔ اور اگر یہ کہتا ہے کہ فلاں تو مر چکا ہے تو یہ ناراض ہو کر کہتے ہیں یہاں نہیں لایا گیا۔ مومن کو اس کی قبر میں بیٹھا دیا جاتا ہے۔ پھر اس سے پوچھا جاتا ہے۔ تیرا نبی کون ہے؟ یہ کہتا ہے میرے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ فرشتہ کہتا ہے کہ تیرا دین کیا ہے؟ یہ جواب دیتا ہے میرا دین اسلام ہے۔ اسی میں ہے کہ اللہ کے دشمن کو جب موت آنے لگتی ہے اور یہ اللہ کی ناراضگی کے اسباب دیکھ لیتا ہے تو نہیں چاہتا کہ اس کی روح نکلے۔ اللہ بھی اس کی ملاقات سے ناخوش ہوتا ہے۔ اس میں ہے کہ اسے سوال جواب اور مارپیٹ کے بعد کہا جاتا ہے ایسا سو جیسے سانپ کٹا ہوا ۔ [مسندبزار:874:صحیح بالشواھد] ‏‏‏‏

اور روایت میں ہے کہ جب یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی گواہی دیتا ہے تو فرشتہ کہتا ہے کہ تجھے کیسے معلوم ہو گیا کیا تو نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کو پایا ہے؟ اس میں ہے کہ کافر کی قبر میں ایسا بہرا فرشتہ عذاب کرنے والا ہوتا ہے کہ جو نہ کبھی سنے نہ رحم کرے ۔ [مسند احمد:352/6:] ‏‏‏‏

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں موت کے وقت مومن کے پاس فرشتے آ کر سلام کرتے ہیں جنت کی بشارت دیتے ہیں اس کے جنازے کے ساتھ چلتے ہیں لوگوں کے ساتھ اس کے جنازے کی نماز میں شرکت کرتے ہیں۔ اس میں ہے کہ کافروں کے پاس فرشتے آتے ہیں۔ ان کے چہروں پر ان کی کمر پر مار مارتے ہیں۔ اسے اس کی قبر میں جواب بھلا دیا جاتا ہے۔ اسی طرح ظالموں کو اللہ گمراہ کر دیتا ہے۔‏‏‏‏

حضرت ابوقتادہ انصاری رحمہ اللہ سے بھی ایسا ہی قول مروی ہے۔ اس میں ہے کہ مومن کہتا ہے کہ میرے نبی محمد بن عبداللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں کئی دفعہ اس سے سوال ہوتا ہے اور یہ یہی جواب دیتا ہے اسے جہنم کا ٹھکانا دکھا کر کہا جاتا ہے کہ اگر ٹیڑھا چلتا تو تیری یہ جگہ تھی۔ اور جنت کا ٹھکانا دکھا کر کہا جاتا ہے کہ توبہ کی وجہ سے یہ ٹھکانہ ہے۔‏‏‏‏

طاؤس رحمہ اللہ فرماتے ہیں دنیا میں ثابت قدمی کلمہ توحید پر استقامت ہے اور آخرت میں ثابت قدمی منکر نکیر کے جواب کی ہے۔‏‏‏‏ حضرت قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں خیر اور عمل صالح کے ساتھ دنیا میں رکھے جاتے ہیں اور قبر میں بھی۔‏‏‏‏

ابوعبداللہ حکیم ترمذی اپنی کتاب نوادر الاصول میں لائے ہیں کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کی جماعت کے پاس آ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کی مسجد میں فرمایا کہ گزشتہ رات میں نے عجیب باتیں دیکھیں، دیکھا کہ میرے ایک امتی کو عذاب قبر نے گھیر رکھا ہے آخر اس کے وضو نے آ کر اسے چھڑا لیا، میرے ایک امتی کو دیکھا کہ شیطان اسے وحشی بنائے ہوئے ہیں لیکن ذکر اللہ نے آ کر اسے خلاصی دلوائی۔ ایک امتی کو دیکھا کہ عذاب کے فرشتوں نے اسے گھیر رکھا ہے۔ اس کی نماز نے آ کر اسے بچا لیا۔ ایک امتی کو دیکھا کہ پیاس کے مارے ہلاک ہو رہا ہے جب حوض پر جاتا ہے دھکے لگتے ہیں۔ اس کا روزہ آیا اور اس نے اسے پانی پلا دیا۔ اور آسودہ کر دیا۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اور امتی کو دیکھا کہ انبیاء علیہم السلام حلقے باندھ باندھ کر بیٹھے ہیں یہ جس حلقے میں بیٹھنا چاہتا ہے وہاں والے اسے اٹھا دیتے ہیں۔ اسی وقت اس کی جنابت کا غسل آیا اور اس کا ہاتھ پکڑ کر میرے پاس بٹھا دیا۔ ایک امتی کو دیکھا کہ چاروں طرف سے اسے اندھیرا گھیرے ہوئے ہے اور اوپر نیچے سے بھی وہ اسی میں گھرا ہوا ہے جو اس کا حج اور عمرہ آیا اور اسے اس اندھیرے میں سے نکال کر نور میں پہنچا دیا۔ ایک امتی کو دیکھا کہ وہ مومنوں سے کلام کرنا چاہتا ہے لیکن وہ اس سے بولتے نہیں اسی وقت صلہ رحمی آئی اور اعلان کیا کہ اس سے بات چیت کرو چنانچہ وہ بولنے چالنے لگے۔

ایک امتی کو دیکھا کہ وہ اپنے منہ پر سے آگ کے شعلے ہٹانے کو ہاتھ بڑھا رہا ہے اتنے میں اس کی خیرات آئی اور اس کے منہ پر پردہ اور اوٹ ہوگئی اور اس کے سر پر سایہ بن گئی اپنے ایک امتی کو دیکھا کہ عذاب کے فرشتوں نے اسے ہر طرف سے قید کر لیا ہے۔ لیکن اس کا نیکی کا حکم اور برائی سے منع کرنا آیا اور ان کے ہاتھوں سے چھڑا کر رحمت کے فرشتوں سے ملا دیا۔ اپنے ایک ایک امتی کو دیکھا کہ گھٹنوں کے بل گرا ہوا ہے۔ اور اللہ میں اور اس میں حجاب ہے اس کے اچھے اخلاق آئے اور اس کا ہاتھ پکڑ کر اللہ کے پاس پہنچا آئے۔ اپنے ایک امتی کو دیکھا کہ اس کا نامہ اعمال اس کی بائیں طرف سے آ رہا ہے لیکن اس کے خوف الٰہی نے آ کر اسے اس کے سامنے کر دیا۔ اپنے ایک امتی کو میں نے جہنم کے کنارے کھڑا دیکھا اسی وقت اس کا اللہ سے کپکپانا آیا اور اسے جہنم سے بچا لے گیا۔

میں نے ایک امتی کو دیکھا کہ پل صراط پر لڑھکنیاں کھا رہا ہے کہ اس کا مجھ پر درود پڑھانا آیا اور ہاتھ تھام کر سیدھا کر دیا۔ اور وہ پار اتر گیا ایک کو دیکھا کہ جنت کے دروازے پر پہنچا لیکن دروازہ بند ہو گیا۔ اسی وقت «لَا إِلَـٰهَ إِلَّا اللَّـهُ» کی شہادت پہنچی دروازے کھلوا دیے اور اسے جنت میں پہنچا دیا
۔ قرطبی اس حدیث کو وارد کر کے فرماتے ہیں یہ حدیث بہت بڑی ہے اس میں ان مخصوص اعمال کا ذکر ہے جو مخصوص مصیبتوں سے نجات دلوانے والے ہیں۔

(‏‏‏‏تذکرہ) اسی بارے میں حافظ ابو یعلیٰ موصلی رحمہ اللہ نے بھی ایک غریب مطول حدیث روایت کی ہے جس میں ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ ملک الموت سے فرماتا ہے ” تو میرے دوست کے پاس جا۔ میں نے اسے آسانی اور سختی دونوں طرح سے آزما لیا ہر ایک حالت میں اسے اپنی خوشی میں خوش پایا تو جا اور اسے میرے پاس لے آ۔ کہ میں اسے ہر طرح کا آرام و عیش دوں “۔

ملک الموت علیہ السلام اپنے ساتھ پانچ سو فرشتوں کو لے کر چلتے ہیں ان کے پاس جنتی کفن وہاں کی خوشبو اور ریحان کے خوشے ہوتے ہیں جس کے سرے پر بیس رنگ ہوتے ہیں ہر رنگ کی خوشبو الگ الگ ہوتی ہے سفید ریشمی کپڑے میں اعلیٰ مشک بہ تکلف لپٹی ہوئی ہوتی ہے یہ سب آتے ہیں ملک الموت علیہ السلام تو اس کے سرہانے بیٹھ جاتے ہیں اور فرشتے اس کے چاروں طرف بیٹھ جاتے ہیں ہر ایک کے ساتھ جو کچھ جنتی تحفہ ہے وہ اس کے اعضاء پر رکھ دیا جاتا ہے اور سفید ریشم اور مشک اذفر اس کی ٹھوڑی تلے رکھ دیا جاتا ہے اس کے لیے جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور اس کی روح کبھی جنتی پھولوں سے کبھی جنتی لباسوں سے کبھی جنتی پھلوں سے اس طرح بہلائی جاتی ہے جیسے روتے ہوئے بچہ کو لوگ بہلاتے ہیں۔

اس وقت اس کی حوریں ہنس ہنس کر اس کی چاہت کرتی ہیں روح ان مناظر کو دیکھ کر بہت جلد جسمانی قید سے نکل جانے کا قصد کرتی ہے ملک الموت فرماتے ہیں ہاں اے پاک روح بغیر کانٹے کی بیریوں کی طرف اور لدے ہوئے کیلوں کی طرف اور لمبی لمبی چھاؤں کی طرف اور پانی کے جھرنوں کی طرف چل۔ واللہ ماں جس قدر بچے پر مہربان ہوتی ہے اس سے بھی زیادہ ملک الموت اس پر شفقت و رحمت کرتا ہے۔ اس لیے کہ اسے علم ہے کہ یہ محبوب الٰہی ہے اگر اسے ذرا سی بھی تکلیف پہنچی تو میرے رب کی ناراضگی مجھ پر ہوگی۔

بس اس طرح اس روح کو اس جسم سے الگ کر لیتا ہے جیسے گوندھے ہوئے آٹے میں سے بال۔ انہیں کے بارے میں فرمان الٰہی ہے کہ ان کی روح کو پاک فرشتے فوت کرتے ہیں۔

اور جگہ فرمان ہے کہ ” اگر وہ مقربین میں سے ہے تو اس کے لیے آرام و آسائش ہے “۔ یعنی موت آرام کی اور آسائش کی ملنے والی اور دنیا کے بدلے کی جنت ہے۔ ملک الموت کے روح کو قبض کرتے ہی روح جسم سے کہتی ہے کہ اللہ تعالیٰ عزوجل تجھے جزا خیر دے تو اللہ کی اطاعت کی طرف جلدی کرنے والا اور اللہ کی معصیت سے دیر کرنے والا تھا۔ تو نے آپ بھی نجات پائی اور مجھے بھی نجات دلوائی جسم بھی روح کو ایسا ہی جواب دیتا ہے۔ زمین کے وہ تمام حصے جن پر یہ عبادت الٰہی کرتا تھا اس کے مرنے سے چالیس دن تک روتے ہیں اسی طرح آسمان کے وہ کل دروازے جن سے اس کے نیک اعمال چڑھتے تھے اور جن سے اس کی روزیاں اترتی تھیں اس پر روتے ہیں۔

اس وقت وہ پانچ سو فرشتے اس جسم کے اردگرد کھڑے ہو جاتے ہیں اور اس کے نہلانے میں شامل رہتے ہیں انسان اس کی کروٹ بدلے اس سے پہلے خود فرشتے بدلے اس سے پہلے خود فرشتے بدل دیتے ہیں اور اسے نہلا کر انسانی کفن سے پہلے اپنا ساتھ لایا ہوا کفن پہنا دیتے ہیں ان کی خوشبو سے پہلے اپنی خوشبو لگا دیتے ہیں اور اس کے گھر کے دروازے سے لے کر اس کی قبر تک دو طرفہ صفیں باندھ کر کھڑے ہو جاتے ہیں اور اس کے لیے استغفار کرنے لگتے ہیں اس وقت شیطان اس زور سے رنج کے ساتھ چیختا ہے کہ اس کے جسم کی ہڈیاں ٹوٹ جائیں اور کہتا ہے میرے لشکریو تم برباد ہو جاؤ ہائے یہ تمہارے ہاتھوں سے کیسے بچ گیا؟ وہ جواب دیتے ہیں کہ یہ تو معصوم تھا۔

جب اس کی روح کو لے کر ملک الموت چڑھتے ہیں تو جبرائیل علیہ السلام ستر ہزار فرشتوں کو لے کر اس کا استقبال کرتے ہیں ہر ایک اسے جدگانہ بشارت الٰہی سناتا ہے یہاں تک کہ اس کی روح عرش الٰہی کے پاس پہنچتی ہے وہاں جاتے ہی سجدے میں گر پڑتی ہے۔

اسی وقت جناب باری کا ارشاد ہوتا ہے کہ ” میرے بندے کی روح کو بغیر کانٹوں کی بیروں میں اور تہ بہ تہ کیلوں کے درختوں میں اور لمبے لمبے سایوں میں اور بہتے پانیوں میں جگہ دو “۔

پھر جب اسے قبر میں رکھا جاتا ہے تو دائیں طرف نماز کھڑی ہو جاتی ہے بائیں جانب روزہ کھڑا ہو جاتا ہے سر کی طرف قرآن آجاتا ہے نمازوں کو چل کر جانا پیروں کی طرف ہوتا ہے ایک کنارے صبر کھڑا ہو جاتا ہے، عذاب کی ایک گردن لپکتی آتی ہے لیکن دائیں جانب سے نماز اسے روک دیتی ہے کہ یہ ہمیشہ چوکنا رہا اب اس قبر میں آ کر ذرا راحت پائی ہے وہ بائیں طرف سے آتی ہے یہاں سے روزہ یہی کہہ کر اسے آنے نہیں دیتا سرہانے سے آتی ہے یہاں سے قرآن اور ذکر یہی کہہ کر آڑے آتے ہیں وہ پائنتیوں سے آتی ہے یہاں اسے اس کا نمازوں کے لیے چل کر جانا اسے روک دیتا ہے غرض چاروں طرف سے اللہ کے محبوب کے لیے روک ہو جاتی ہے اور عذاب کو کہیں سے راہ نہیں ملتی وہ واپس چلا جاتا ہے اس وقت صبر کہتا ہے کہ میں دیکھ رہا تھا کہ اگر تم سے ہی یہ عذاب دفع ہو جائے تو مجھے بولنے کی کیا ضرورت؟ ورنہ میں بھی اس کی حمایت کرتا اب میں پل صراط پر اور میزان کے وقت اس کے کام آؤں گا۔

اب دو فرشتے بھیجے جاتے ہیں ایک کو نکیر کہا جاتا ہے دوسرے کو منکر۔ یہ اچک لے جانے والی بجلی جیسے ہوتے ہیں ان کے دانت سیہ جیسے ہوتے ہیں ان کے سانس سے شعلے نکلتے ہیں ان کے بال پیروں تلے لٹکتے ہوتے ہیں ان کے دو کندھوں کے درمیان اتنی اتنی مسافت ہوتی ہے۔ ان کے دل نرمی اور رحمت سے بالکل خالی ہوتے ہیں ان میں سے ہر ایک کے ہاتھ میں ہتھوڑے ہوتے ہیں کہ اگر قبیلہ ربیعہ اور قبیلہ مضرم جمع ہو کر اسے اٹھانا چاہیں تو ناممکن۔ وہ آتے ہی اسے کہتے ہیں اٹھ بیٹھ۔ یہ اٹھ کر سیدھے طرح بیٹھ جاتا ہے اس کا کفن اس کے پہلو پر آ جاتا ہے وہ اس سے پوچھتے ہیں تیرا رب کون ہے؟ تیرا دین کیا ہے تیرا نبی کون ہے؟ صحابہ رضی اللہ عنہم سے نہ رہا گیا انہوں نے کہا رسول اللہ ایسے ڈراؤنے فرشتوں کو کون جواب دے سکے گا؟

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی آیت «يُثَبِّتُ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا وَفِي» [14-ابراھیم:27] ‏‏‏‏ کی تلاوت فرمائی اور فرمایا: وہ بے جھجک جواب دیتا ہے کہ میرا رب «اللہ وَحدَهُ لَا شَرِیْکَ لَهُ» ہے اور میرا دین اسلام ہے جو فرشتوں کا بھی دین ہے اور میرے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جو خاتم الانبیاء تھے صلی اللہ علیہ وسلم وہ کہتے ہیں آپ نے صحیح جواب دیا۔ اب تو وہ اس کے لیے اس کی قبر کو اس کے آگے سے اس کے دائیں سے اس کے بائیں سے اس کے پیچھے سے اس کے سر کی طرف سے اس کے پاؤں کی طرف سے چالیس چالیس ہاتھ کشادہ کر دیتے ہیں دو سو ہاتھ کی وسعت کر دیتے ہیں اور چالیس ہاتھ کا احاطہٰ کر دیتے ہیں اور اس سے فرماتے ہیں اپنے اوپر نظریں اٹھا یہ دیکھتا ہے کہ جنت کا دروازہ کھلا ہوا ہے وہ کہتے ہیں اے اللہ کے دوست چونکہ تو نے اللہ کی بات مان لی تیری منزل یہ ہے ۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اس اللہ کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد [ صلی اللہ علیہ وسلم ] ‏‏‏‏ کی جان ہے اس وقت جو سرور و راحت اس کے دل کو ہوتی ہے وہ لازوال ہوتی ہے۔ پھر اس سے کہا جاتا ہے اب اپنے نیچے کی طرف دیکھ۔ یہ دیکھتا ہے کہ جہنم کا دروازہ کھلا ہوا ہے فرشتے کہتے ہیں کہ دیکھ اس سے اللہ نے تجھے ہمیشہ کے لیے نجات بخشی پھر تو اس کا دل اتنا خوش ہوتا ہے کہ یہ خوشی ابد الا باد تک ہٹتی نہیں ۔ ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ اس کے لیے ستر دروازے جنت کے کھل جاتے ہیں جہاں سے بادصبا کی لپٹیں خوشبو اور ٹھنڈک کے ساتھ آتی رہتی ہیں یہاں تک کہ اسے اللہ عزوجل اس کی اس خواب گاہ سے قیامت کے قائم ہو جانے پر اٹھائے۔

اسی اسناد سے مروی ہے کہ اللہ تعالیٰ برے بندے کے لیے ملک الموت سے فرماتا ہے ” جا اور اس میرے دشمن کو لے آ۔ اسے میں نے تیری زندگی میں برکت دے رکھی تھی اپنی نعمیتں عطا فرما رکھی تھیں لیکن پھر بھی یہ میری نافرمانیوں سے نہ بچا اسے لے آ تاکہ میں اس سے انتقام لوں “، اسی وقت ملک الموت علیہ السلام اس کے سامنے انتہائی بد اور ڈراؤنی صورت میں آتے ہیں ایسی کہ کسی نے اتنی بھیانک اور گھناؤنی صورت نہ دیکھی ہو بارہ آنکھیں ہوتی ہیں جہنم کا خار دار لباس ساتھ ہوتا ہے پانچ سو فرشتے جو جہنمی آگ کے انگارے اور آگ کے کوڑے اپنے ساتھ لیے ہوئے ہوتے ہیں ان کے ساتھ ہوتے ہیں۔

ملک الموت وہ خار دار کھال جو جہنم کی آگ کی ہے اس کے جسم پر مارتے ہیں روئیں روئیں میں آگ کے کانٹے گھس جاتے ہیں پھر اس طرح گہماتے ہیں کہ اس کا جوڑ جوڑ ڈھیلا پڑ جاتا ہے پھر اس کی روح اس کے پاؤں کے انگوٹھوں سے کھینچتے ہیں اور اس کے گھٹنوں پر ڈال دیتے ہیں اس وقت اللہ کا دشمن بیہوش ہو جاتا ہے پس ملک الموت اسے اٹھا لیتے ہیں فرشتے اپنے جہنمی کوڑے اس کے چہرے پر اور پیٹھ پر مارتے ہیں پھر اس کے تہ بند باندھنے کی جگہ پر ڈال دیتے ہیں یہ دشمن رب اس وقت پھر بے تاب ہو جاتا ہے فرشتہ موت پھر اس بیہوشی کو اٹھا لیتا ہے اور فرشتے پھر اس کے چہرے پر اور کمر پر کوڑے برسانے لگتے ہیں آخر یہاں تک کہ روح سینے پر چڑھ جاتی ہے پھر حلق تک پہنچتی ہے پھر فرشتے جہنمی تانبے اور جہنمی انگاروں کو اس کو ٹھوڑی کے نیچے رکھ دیتے ہیں اور ملک الموت علیہ السلام فرماتے ہیں اے لعین و ملعون روح چل سینک میں اور جھلستے پانی اور کالے سیاہ دھویں کے غبار میں جس میں نہ تو خنکی ہے نہ اچھی جگہ۔‏‏‏‏

جب یہ روح قبض ہو جاتی ہے تو اپنے جسم سے کہتی ہے اللہ تجھ سے سمجھے تو مجھے اللہ کی نافرمانیوں کی طرف بھگائے لیے جا رہا تھا۔ خود بھی ہلاک ہوا اور مجھے بھی برباد کیا۔ جسم بھی روح سے یہی کہتا ہے۔ زمین کے وہ تمام حصے جہاں یہ اللہ کی معصیت کرتا تھا اس پر لعنت کرنے لگتے ہیں۔

شیطانی لشکر دوڑتا ہوا شیطان کے پاس پہنچتا ہے اور کہتا ہے کہ ہم نے آج ایک کو جہنم میں پہنچا دیا۔ اس کی قبر اس قدر تنگ ہو جاتی ہے کہ اس کی دائیں پسلیاں بائیں میں اور بائیں دائیں میں گھس جاتی ہے کالے ناگ بختی اونٹوں کے برابر اس کی قبر میں بھیجے جاتے ہیں جو اس کے کانوں اور اس کے پاؤں کے انگوٹھوں سے اسے ڈسنا شروع کرتے ہیں اور اوپر چڑھتے آتے ہیں یہاں تک کہ وسط جسم میں مل جاتے ہیں۔ دو فرشتے بھیجے جاتے ہیں جن کی آنکھیں تیز بجلی جیسی جن کی آواز گرج جیسی جن کے دانت درندے جیسے جن کے سانس آگ کے شعلے جیسے جن کے بال پیروں کے نیچے تک جن کے دو مونڈھوں کے درمیان اتنی اتنی مسافت ہے جن کے دل میں رحمت و رحم کا نام نشان بھی نہیں جن کا نام ہی منکر نکیر ہے جن کے ہاتھ میں لوہے کے اتنے بڑے ہتھوڑے ہیں جنہیں ربیعہ اور مضرم مل کر بھی نہیں اٹھا سکتے وہ اسے کہتے ہیں اٹھ بیٹھ یہ سیدھا بیٹھ جاتا ہے اور تہ بند باندھنے کی جگہ اس کا کفن آ پڑتا ہے وہ اس سے پوچھتے ہیں تیرا رب کون ہے؟ تیرا دین کیا ہے؟ تیرا نبی کون ہے؟

یہ کہتا ہے مجھے تو کچھ خبر نہیں وہ کہتے ہیں ہاں نہ تو نے معلوم کیا نہ تو نے پڑھا پھر اس زور سے اسے ہتھوڑا مارتے ہیں کہ اس کے شرارے اس کی قبر کو پر کر دیتے ہیں پھر لوٹ کر اس سے کہتے ہیں اپنے اوپر کو دیکھ یہ ایک کھلا ہوا دروازہ دیکھتا ہے وہ کہتے ہیں واللہ اگر تو اللہ کا فرمانبردار رہتا تو تیری یہ جگہ تھی۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اب تو اسے وہ حسرت ہوتی ہے جو کبھی اس کے دل سے جدا نہیں ہونے کی۔ پھر وہ کہتے ہیں اب اپنے نیچے دیکھ وہ دیکھتا ہے کہ ایک دروازہ جہنم کا کھلا ہوا ہے فرشتے کہتے ہیں اے دشمن رب چونکہ تو نے اللہ کی مرضی کے خلاف کام کئے ہیں اب تیری جگہ یہ ہے واللہ اس وقت اس کا دل رنج و افسوس سے بیٹھ جاتا ہے جو صدمہ اسے کبھی بھولنے کا نہیں اس کے لیے ستر دروازے جہنم کے کھل جاتے ہیں جہاں سے گرم ہوا اور بھاپ اسے ہمیشہ ہی آیا کرتی ہے یہاں تک کہ اسے اللہ تعالیٰ اٹھا بٹھائے ۔ [الدر المنثور للسیوطی، 528/3:ضعیف] ‏‏‏‏ یہ حدیث بہت غریب ہے اور یہ سیاق بہت عجیب ہے اور اس کا راوی یزید رقاضی جو سیدنا انس رضی اللہ عنہ کے نیچے کا راوی ہے اس کی غرائب و منکرات بہت ہیں اور ائمہ کے نزدیک وہ ضعیف الروایت ہے «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔

ابوداؤد میں ہے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی شخص کے دفن سے فارغ ہوتے تو وہاں ٹھہر جاتے اور فرماتے اپنے بھائی کے لیے استغفار کرو اور اس کے لیے ثابت قدمی طلب کرو اس وقت اس سے سوال ہو رہا ہے ۔ [سنن ابوداود:3221،قال الشيخ الألباني:صحیح] ‏‏‏‏

حافظ ابن مردویہ نے فرمان باری «وَلَوْ تَرٰٓي اِذِ الظّٰلِمُوْنَ فِيْ غَمَرٰتِ الْمَوْتِ» [6-الأنعام:93] ‏‏‏‏ کی تفسیر میں ایک بہت لمبی حدیث وارد کی ہے وہ بھی غرائب سے پر ہے۔



https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.