صحیح بخاری شریف میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ مسلمان سے جب اس کی قبر میں سوال ہوتا ہے تو وہ گواہی دیتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم رسول اللہ ہیں یہی مراد اس آیت کی ہے ۔ [صحیح بخاری:1369]
مسند میں ہے [مسند احمد:287/4:صحیح] کہ ایک انصاری کے جنازے میں ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے قبرستان پہنچے ابھی تک قبر تیار نہ تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھ گئے اور ہم بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آس پاس ایسے بیٹھ گئے گویا ہمارے سروں پر پرند ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں جو تنکا تھا اس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم زمین پر لکیریں نکال رہے تھے جو سر اٹھا کر دو تین مرتبہ فرمایا کہ عذاب قبر سے اللہ کی پناہ چاہو بندہ جب دنیا کی آخرت اور آخرت کی پہلی گھڑی میں ہوتا ہے تو اس کے پاس آسمان سے نورانی چہرے والے فرشتے آتے ہیں۔ گویا کہ ان کے چہرے والے فرشتے آتے ہیں۔ گویا کہ ان کے چہرے سورج جیسے ہیں ان کے ساتھ جنتی کفن اور جنتی خوشبو ہوتی ہے اس کے پاس جہاں تک اس کی نگاہ کام کرے وہاں تک بیٹھ جاتے ہیں پھر ملک الموت آ کر اس کے سرھانے بیٹھ جاتے ہیں اور فرماتے ہیں اے پاک روح اللہ تعالیٰ کی مغفرت اس کی رضا مندی کی طرف چل وہ اس آسانی سے نکل آتی ہے جیسے کسی مشک سے پانی کا قطرہ ٹپ آیا ہو ایک آنکھ جھپکے کے برابر کی دیر ہی میں وہ فرشتے اسے ان کے ہاتھ میں نہیں رہنے دیتے فوراً لے لیتے ہیں اور جنتی کفن اور جنتی خوشبو میں رکھ لیتے ہیں۔ خود اس روح میں سے بھی مشک سے بھی عمدہ خوشبو نکلتی ہے کہ روئے زمین پر ایسی عمدہ خوشبو نہ سونگھی گئی ہو۔ وہ اسے لے کر آسمانوں کی طرف چڑھتے ہیں۔ فرشتوں کی جس جماعت کے پاس سے گزرتے ہیں وہ پوچھتے ہیں کہ یہ پاک روح کس کی ہے؟ یہ اس کا جو بہترین نام دنیا میں مشہور تھا۔ وہ بتلاتے ہیں اور اس کے باپ کا نام بھی۔ آسمان دنیا تک پہنچ کر دروازے کھلواتے ہیں آسمان کا دروازہ کھل جاتا ہے۔ اور وہاں کے فرشتے اسے دوسرے آسمان تک اور دوسرے آسمان کے تیسرے آسمان تک ۔
اسی طرح ساتویں آسمان پر وہ پہنچتا ہے۔ اللہ عزوجل فرماتا ہے ” میرے بندے کو کتاب علیین میں لکھ لو اور اسے زمین کی طرف لوٹا دو۔ میں نے اسی سے اسے پیدا کیا ہے اور اسی سے دوبارہ نکالوں گا “۔
پس اس کی روح اسی کے جسم میں لوٹا دی جاتی ہے اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں اسے اٹھا بٹھاتے ہیں اور سوال کرتے ہیں کہ تیرا رب کون ہے؟ وہ جواب دیتا ہے اللہ تعالیٰ۔ پھر پوچھتے ہیں کہ تیرا دین کیا ہے؟ وہ جواب دیتا ہے کہ اسلام۔ پھر سوال ہوتا ہے کہ وہ شخص کون ہے جو تم میں بھیجا گیا تھا؟ یہ کہتا ہے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے۔ فرشتے پوچھتے ہیں تجھے کیسے معلوم ہوا؟ وہ کہتا ہے میں نے کتاب اللہ پڑھی اس پر ایمان لایا اسے سچا مانا۔ اسی وقت آسمان سے ایک منادی ندا دیتا ہے، کہ ” میرا بندہ سچا ہے “۔
اس کے لیے جنتی فرش بچھا دو اور جنتی لباس پہنا دو اور جنت کی طرف کا دروازہ کھول دو پس جنت کی روح پرور خوشبودار ہواؤں کی لپٹیں اسے آنے لگتی ہیں اس کی قبر بقدر درازگی نظر کے وسیع کر دی جاتی ہے۔ اس کے پاس ایک شخص خوبصورت نورانی چہرے والا عمدہ کپڑوں والا اچھی خوشبو والا آتا ہے اور اس سے کہتا ہے۔ آپ خوش ہو جائیں اسی دن کا وعدہ آپ دئے جاتے تھے۔ یہ اس سے پوچھتا ہے کہ آپ کون ہیں؟ آپ کے چہرے سے بھلائی ہی بھلائی نظر آتی ہے۔ وہ جواب دیتا ہے۔ کہ تیرا نیک عمل ہوں۔ اس وقت مسلمان آرزو کرتا ہے کہ یا اللہ قیامت جلد قائم ہو جائے تو میں اپنے اہل و عیال اور ملک و مال کی طرف لوٹ جاؤں۔
اور کافر بندہ جب دنیا کی آخری ساعت اور آخرت کی اول ساعت میں ہوتا ہے اس کے پاس سیاہ چہرے کے آسمانی فرشتے آتے ہیں اور ان کے ساتھ جہنمی ٹاٹ ہوتا ہے جہاں تک نگاہ پہنچے وہاں تک وہ بیٹھ جاتے ہیں پھر ملک الموت علیہ السلام آ کر اس کے سرہانے بیٹھ کر فرماتے ہیں اے خبیث روح اللہ تعالیٰ کے غضب و قہر کی طرف چل۔
اس کی روح جسم میں چھپتی پھرتی ہے جسے بہت سختی کے ساتھ نکالا جاتا ہے۔ اسی وقت ایک آنکھ جھپکنے جتنی دیر میں اسے فرشتے ان کے ہاتھوں سے لے لیتے ہیں اور اس جہنمی بورے میں لپیٹ لیتے ہیں اس میں سے ایسی بدبو نکلتی ہے کہ روئے زمین پر اس سے زیادہ بدبو نہیں پائی گئی اب یہ اسے لے کر اوپر کو چڑھتے ہیں۔ فرشتوں کی جس جماعت کے پاس سے گزرتے ہیں وہ پوچھتے ہیں یہ خبیث روح کس کی ہے؟ وہ اس کا بدترین نام جو دنیا میں تھا بتلاتے ہیں اور اس کے باپ کا نام بھی۔ آسمان دنیا تک پہنچ کر دروازہ کھلوانا چاہتے ہیں لیکن کھولا نہیں جاتا۔
پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے «لَا تُفَتَّحُ لَهُمْ أَبْوَابُ السَّمَاءِ وَلَا يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ حَتَّىٰ يَلِجَ الْجَمَلُ فِي سَمِّ الْخِيَاطِ وَكَذَٰلِكَ نَجْزِي الْمُجْرِمِينَ»[7-الأعراف:40] کی تلاوت فرمائی کہ ” نہ ان کے لیے آسمان کے دروازے کھلیں نہ وہ جنت میں جا سکیں یہاں تک کہ سوئی کے ناکے میں سے اونٹ گزر جائے “۔
اللہ تعالیٰ حکم فرماتا ہے کہ ” اس کو کتاب سجین میں لکھ لو جو سب سے نیچے کی زمین میں ہے پس اس کو روح وہیں پھینک دی جاتی ہے “۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے «وَمَن يُشْرِكْ بِاللَّـهِ فَكَأَنَّمَا خَرَّ مِنَ السَّمَاءِ فَتَخْطَفُهُ الطَّيْرُ أَوْ تَهْوِي بِهِ الرِّيحُ فِي مَكَانٍ سَحِيقٍ»[22-الج:31] ، کی تلاوت فرمائی یعنی ” اللہ کے ساتھ جو شرک کرے گویا کہ وہ آسمان سے گر پڑا۔ یا تو اسے پرند اچک لے جائیں گے یا آندھی اسے کسی دور کے گڑھے میں پھینک مارے گی “۔
پھر اس کی روح اسی جسم میں لوٹائی جاتی ہے اس کے پاس دو فرشتے پہنچتے ہیں جو اسے اٹھا بٹھاتے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ تیرا رب کون ہے؟ وہ جواب دیتا ہے کہ ہائے ہائے مجھے نہیں معلوم۔ پھر پوچھتے ہیں تیرا دین کیا ہے؟ وہ کہتا ہے ہائے ہائے مجھے اس کا بھی علم نہیں۔ پھر پوچھتے ہیں وہ کون تھا جو تم میں بھیجا گیا تھا؟ وہ کہتا ہے ہائے ہائے مجھے معلوم نہیں اسی وقت آسمان سے ایک منادی کی ندا آتی ہے کہ میرا بندہ جھوٹا ہے اس کے لیے جہنم کی آگ کا فرش کر دو اور دوزخ کی جانب کا دروازہ کھول دو وہیں سے اسے دوزخی ہوا اور دوزخ کا جھونکا پہنچتا رہتا ہے اور اس کی قبر اس پر اتنی تنگ ہو جاتی ہے کہ اس کی پسلیاں ایک دوسرے میں گھس جاتی ہیں ۔
بڑی بری اور ڈراؤنی صورت والا برے میلے کچیلے خراب کپڑوں والا بڑی بدبو والا ایک شخص اس کے پاس آتا ہے اور کہتا ہے اب غمناک ہو جاؤ۔ اسی دن کا تجھ سے وعدہ کیا جاتا تھا۔ یہ پوچھتا ہے تو کون ہے؟ تیرے چہرے سے برائی برستی ہے۔ وہ کہتا ہے میں تیرے بد اعمال کا مجسمہ ہوں تو یہ دعا کرتا ہے کہ یا اللہ قیامت قائم نہ ہو ۔ [سنن ابوداود:4793، قال الشيخ الألباني:صحیح]
مسند میں ہے کہ نیک بندے کی روح نکلنے کے وقت آسمان و زمین کے درمیان کے فرشتے اور آسمانوں کے فرشتے سب اس پر رحمت بھیجتے ہیں اور آسمانوں کے دروازے اس کے لیے کھل جاتے ہیں ہر دروازے کے فرشتوں کی دعا ہوتی ہے کی اس کی پاک اور نیک روح ان کے دروازے سے چڑھائی جائے الخ اور برے شخص کے بارے میں اس میں ہے کہ اس کی قبر میں ایک اندھا بہرا گونگا فرشتہ مقرر ہوتا ہے جس کے ہاتھ میں ایک گرز ہوتا ہے کہ اگر وہ کسی بڑے پہاڑ پر مار دیا جائے تو وہ مٹی بن جائے۔ اس سے وہ اسے مارتا ہے یہ مٹی ہو جاتا ہے اسے اللہ عزوجل پھر لوٹاتا ہے۔ جیسا تھا ویسا ہی ہو جاتا ہے وہ اسے پھر وہی گرز ماتا ہے یہ ایسا چیختا ہے کہ اس کی چیخ کو سوائے انسانوں اور جن کے ہر کوئی سنتا ہے ۔ [مسند احمد:295/4:الشيخ الألباني:صحیح]