مشرکین کا ایک اعتراض بیان ہو رہا ہے کہ ” اگلے نبیوں کی طرح یہ ہمیں ہمارا کہا ہوا کوئی معجزہ کیوں نہیں دکھاتا؟ “ اس کی پوری بحث کئی بار گزر چکی کہ اللہ کو قدرت تو ہے لیکن اگر پھر بھی یہ ٹس سے مس نہ ہوئے تو انہیں نیست و نابود کر دیا جائے گا۔
حدیث میں ہے کہ اللہ کی طرف سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی آئی کہ ” ان کی چاہت کے مطابق میں صفا پہاڑ کو سونے کا کر دیتا ہوں، زمین عرب میں میٹھے دریاؤں کی ریل پیل کر دیتا ہوں، پہاڑی زمین کو زراعتی زمین سے بدل دیتا ہوں لیکن پھر بھی اگر یہ ایمان نہ لائے تو انہیں وہ سزا دوں گا جو کسی کو نہ ہوتی ہو۔ اگر چاہوں تو یہ کر دوں اور اگر چاہوں تو ان کے لیے توبہ اور رحمت کا دروازہ کھلا رہنے دوں “، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسری صورت پسند فرمائی ۔ [مسند احمد:242/1:صحیح]
سچ ہے ہدایت ضلالت اللہ کے ہاتھ ہے وہ کسی معجزے کے دیکھنے پر موقوف نہیں، «وَمَا تُغْنِي الْآيَاتُ وَالنُّذُرُ عَن قَوْمٍ لَّا يُؤْمِنُونَ»[10-یونس:101] ” بے ایمانوں کے لیے نشانات اور ڈراوے سب بےسود ہیں “۔
«إِنَّ الَّذِينَ حَقَّتْ عَلَيْهِمْ كَلِمَتُ رَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ وَلَوْ جَاءَتْهُمْ كُلُّ آيَةٍ حَتَّىٰ يَرَوُا الْعَذَابَ الْأَلِيمَ»[10-یونس:96-97] ” جن پر کلمہ عذاب صادق ہو چکا ہے وہ تمام تر نشانات دیکھ کر بھی مان کر نہ دیں گے ہاں عذابوں کو دیکھ تو پورے ایماندار بن جائیں گے لیکن وہ محض بے کار چیز ہے “۔
فرماتا ہے «وَلَوْ أَنَّنَا نَزَّلْنَا إِلَيْهِمُ الْمَلَائِكَةَ وَكَلَّمَهُمُ الْمَوْتَىٰ وَحَشَرْنَا عَلَيْهِمْ كُلَّ شَيْءٍ قُبُلًا مَّا كَانُوا لِيُؤْمِنُوا إِلَّا أَن يَشَاءَ اللَّـهُ وَلَـٰكِنَّ أَكْثَرَهُمْ يَجْهَلُونَ»[ 6-الأنعام: 111 ] ، یعنی ” اگر ہم ان پر فرشتے اتارتے اور ان سے مردے باتیں کرتے اور ہر چھپی چیز ان کے سامنے ظاہر کر دیتے تب بھی انہیں ایمان نصیب نہ ہوتا۔ ہاں اگر اللہ چاہے تو اور بات ہے لیکن ان میں اکثر جاہل ہیں “۔
جو اللہ کی طرف جھکے اس سے مدد چاہے اس کی طرف عاجزی کرے وہ راہ یافتہ ہو جاتا ہے۔ جن کے دلوں میں ایمان جم گیا ہے جن کے دل اللہ کی طرف جھکتے ہیں، اس کے ذکر سے اطمینان حاصل کرتے ہیں، راضی خوشی ہو جاتے ہیں اور فی الواقع ذکر اللہ اطمینان دل کی چیز بھی ہے۔ ایمانداروں اور نیک کاروں کے لیے خوشی، نیک فالی اور آنکھوں کی ٹھنڈک ہے۔ ان کا انجام اچھا ہے، یہ مستحق مبارک باد ہیں یہ بھلائی کو سمیٹنے والے ہیں ان کا لوٹنا بہتر ہے، ان کا مال نیک ہے۔
مروی ہے کہ طوبٰی سے مراد ملک حبش ہے اور نام ہے جنت کا اور اس سے مراد جنت ہے۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں ”جنت کی جب پیدائش ہو چکی اس وقت جناب باری نے یہی فرمایا تھا۔“ کہتے ہیں کہ ”جنت میں ایک درخت کا نام بھی طوبی ہے کہ ساری جنت میں اس کی شاخیں پھیلی ہوئی ہیں، ہر گھر میں اس کی شاخ موجود ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسے اپنے ہاتھ سے بویا ہے، لولو کے دانے سے پیدا کیا ہے اور بحکم الٰہی یہ بڑھا اور پھیلا ہے۔ اس کی جڑوں سے جنتی شہد، شراب، پانی اور دودھ کی نہریں جاری ہوتی ہیں۔“
ایک مرفوع حدیث میں ہے طوبی نامی جنت کا ایک درخت ہے سو سال کے راستے کا۔ اسی کے خوشوں سے جنتیوں کے لباس نکلتے ہیں ۔ [سلسلة احادیث صحیحه البانی:1241،]
مسند احمد میں ہے کہ ایک شخص نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ لیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لایا اسے مبارک ہو؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں اسے بھی مبارک ہو۔ اور اسے دوگنا مبارک ہو جس نے مجھے نہ دیکھا اور مجھ پر ایمان لایا ۔ ایک شخص نے پوچھا طوبیٰ کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جنتی درخت ہے جو سو سال کی راہ تک پھیلا ہوا ہے جنتیوں کے لباس اس کی شاخوں سے نکلتے ہیں ۔ [سلسلة احادیث صحیحه البانی:1241،]
بخاری مسلم میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جنت میں ایک درخت ہے کہ سوار ایک سو سال تک اس کے سائے میں چلتا رہے گا لیکن وہ ختم نہ ہو گا ۔ [صحیح بخاری:6552] اور روایت میں ہے کہ چال بھی تیز اور سواری بھی تیز چلنے والی ۔ [صحیح بخاری:6553] صحیح بخاری شریف میں آیت «وَظِلٍّ مَّمْدُودٍ»[56-الواقعة:30] کی تفسیر میں بھی یہی ہے۔ [صحیح بخاری:4881]
اور حدیث میں ہے ستر یا سو سال اس کا نام شجرۃ الخلد ہے ۔ [مسند احمد:455/2:صحیح دون الجملة]
سدرۃ المنتہیٰ کے ذکر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے اس کی شاخ کے سائے تلے ایک سو سال تک سوار چلتا رہے گا اور سو سو سوار اس کی ایک ایک شاخ تلے ٹھہر سکتے ہیں۔ اس میں سونے کی ٹڈیاں ہیں، اس کے پھل بڑے بڑے مٹکوں کے برابر ہیں ۔ [سنن ترمذي:4541،قال الشيخ الألباني:ضعیف]
آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ہر جنتی کو طوبیٰ کے پاس لے جائیں گے اور اسے اختیار دیا جائے گا کہ جس شاخ کو چاہے پسند کرے۔ سفید، سرخ، زرد سیاہ جو نہایت خوبصورت نرم اور اچھی ہوں گی ۔ [الدر المنشور للسیوطی:112/4:ضعیف]
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ”طوبٰی کو حکم ہوگا کہ ” میرے بندوں کے لیے بہترین چیزیں ٹپکا “۔ تو اس میں سے گھوڑے اور اونٹ برسنے لگیں گے، سجے سجائے اور زین لگام وغیرہ کسے کسائے عمدہ بہترین لباس وغیرہ۔“
ابن جریر رحمہ اللہ نے اس جگہ ایک عجیب وغریب اثر وارد کیا ہے۔ رہب رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ”جنت میں ایک درخت ہے جس کا نام طوبیٰ ہے جس کے سائے تلے سوار سو سال تک چلتا رہے گا لیکن راستہ ختم نہ ہوگا۔ اس کی تروتازگی کھلے ہوئے چمن کی طرح ہے اس کے پتے بہترین اور عمدہ ہیں اس کے خوشے عنبریں ہیں اس کے کنکر یاقوت ہیں اس کی مٹی کافور ہے اس کا گارا مشک ہے اس کی جڑ سے شراب، دودھ، اور شہد کی نہریں بہتی ہیں۔ اس کے نیچے جنتیوں کی مجلسیں ہوں گی، یہ بیٹھے ہوئے ہوں گے جو ان کے پاس فرشتے اونٹنیاں لے کر آیئں گے۔ جن کی زنجریں سونے کی ہوں گی، جن پر یاقوت کے پالان ہوں گے جن پر سونا جڑاؤ ہو رہا ہو گا جن پر ریشمی جھولیں ہوں گی۔ وہ اونٹنیاں ان کے سامنے پیش کریں گے اور کہیں گے کہ یہ سواریاں تمہیں بھجوائی گئی ہیں اور دربار الٰہی میں تمہارا بلاوا ہے، یہ ان پر سوار ہوں گے، وہ پرندوں کی پرواز سے بھی تیز رفتار ہوں گی۔ جنتی ایک دوسرے سے مل کر چلیں گے وہ خودبخود ہٹ جائیں گے کہ کسی کو اپنے ساتھی سے الگ نہ ہونا پڑے یونہی رحمن و رحیم رب کے پاس پہنچیں گے۔
اللہ تعالیٰ اپنے چہرے سے پردے ہٹا دے گا یہ اپنے رب کے چہرہ کو دیکھیں گے اور کہیں گے «اللَّهُمَّ أَنْتَ السَّلَام وَمِنْك السَّلَام وَحُقَّ لَك الْجَلَال وَالْإِكْرَام» ان کے جواب میں اللہ تعالیٰ رب العزت فرمائے گا ” «أَنَا السَّلَام وَمِنِّي السَّلَام وَعَلَيْكُمْ» تم پر میری رحمت ثابت ہو چکی اور محبت بھی “۔ میرے ان بندوں کو مرحبا ہو جو بن دیکھے مجھ سے ڈرتے رہے میری فرماں برداری کرتے رہے جنتی کہیں گے باری تعالیٰ نہ تو ہم سے تیری عبادت کا حق ادا ہوا نہ تیری پوری قدر ہوئی ہمیں اجازت دے کہ تیرے سامنے سجدہ کریں اللہ فرمائے گا ” یہ محنت کی جگہ نہیں نہ عبادت کی یہ تو نعمتوں راحتوں اور مالا مال ہونے کی جگہ ہے۔ عبادتوں کی تکلیف جاتی رہی مزے لوٹنے کے دن آ گئے جو چاہو مانگو، پاؤ گے۔ تم میں سے جو شخص جو مانگے میں اسے دوں گا “۔
پس یہ مانگیں گے کم سے کم سوال والا کہے گا کہ اللہ تو نے دنیا میں جو پیدا کیا تھا جس میں تیرے بندے ہائے وائے کر رہے تھے۔ میں چاہتا ہوں کہ شروع دنیا سے ختم دنیا تک دنیا میں جتنا کچھ تھا مجھے عطا فرما۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا ” تو نے تو کچھ نہ مانگا اپنے مرتبے سے بہت کم چیز مانگی، اچھا ہم نے دی۔ میری بخشش اور دین میں کیا کمی ہے؟ “
پھر فرمائے گا ” جن چیزوں تک میرے ان بندوں کے خیالات کی رسائی بھی نہیں وہ انہیں دو “ چنانچہ دی جائیں گی یہاں تک کہ ان کی خواہشیں پوری ہو جائیں گی۔
ان چیزوں میں جو انہیں یہاں ملیں گی تیز رو گھوڑے ہوں گے ہر چار پر یاقوتی تخت ہو گا ہر تخت پر سونے کا ایک ڈیرا ہو گا ہر ڈیرے میں جنتی فرش ہو گا جن پر بڑی بڑی آنکھوں والی دو دو حوریں ہوں گی جو دو دو حلے پہنے ہوئے ہوں گی جن میں جنت کے تمام رنگ ہوں گے اور تمام خوشبوئیں۔ ان خیموں کے باہر سے ان کے چہرے ایسے چمکتے ہوں گے گویا وہ باہر بیٹھی ہیں ان کی پنڈلی کے اندر کا گودا باہر سے نظر آ رہا ہو گا جیسے سرخ یاقوت میں ڈورا پرویا ہوا ہو اور وہ اوپر سے نظر آ رہا ہو۔“
”ہر ایک دوسری پر اپنی فضیلت ایسی جانتی ہوگی جیسی فضیلت سورج کی پتھر پر اس طرح جنتی کی نگاہ میں بھی دونوں ایسی ہی ہوں گی۔ یہ ان کے پاس جائے گا اور ان سے بوس وکنار میں مشغول ہو جائے گا۔ وہ دونوں اسے دیکھ کر کہیں گی واللہ ہمارے تو خیال میں بھی نہ تھا کہ اللہ تم جیسا خاوند ہمیں دے گا۔ اب بحکم الٰہی اسی طرح صف بندی کے ساتھ سواریوں پر یہ واپس ہوں گے اور اپنی منزلوں میں پہنچیں گے۔ دیکھو تو سہی کہ رب وہاب نے انہیں کیا کیا نعمتیں عطا فرما رکھی ہیں؟
وہاں بلند درجہ لوگوں میں اونچے اونچے بالا خانوں میں جو نرے موتی کے بنے ہوئے ہوں گے جن کے دروازے سونے کے ہوں گے، جن کے منبر نور کے ہوں گے جن کی چمک سورج سے بالا تر ہو گی۔ اعلیٰ علیین میں ان کے محل ہوں گے۔ یاقوت کے بنے ہوئے۔ نورانی۔ جن کے نور سے آنکھوں کی روشنی جاتی رہے لیکن اللہ تعالیٰ ان کی آنکھیں ایسی نہ کر دے گا۔
جو محلات یاقوت سرخ کے ہوں گے ان میں سبز ریشمی فرش ہوں گے اور جو زمرد و یاقوت کے ہوں گے ان کے فرش سرخ مخمل کے ہوں گے۔ جو زمرد اور سونے کے جڑاؤ کے ہوں گے ان تختوں کے پائے جواہر کے ہوں گے، ان پر چھتیں لولو کی ہوں گی، ان کے برج مرجان کے ہوں گے۔
ان کے پہنچنے سے پہلے ہی رحمانی تحفے وہاں پہنچ چکے ہوں گے۔ سفید یاقوتی گھوڑے غلمان لیے کھڑے ہوں گے جن کا سامان چاندی کا جڑاؤ ہوگا۔ ان کے تخت پر اعلیٰ ریشمی نرم و دبیز فرش بچھے ہوئے ہوں گے یہ ان سواریوں پر سوار ہو کر بے تک لف جنت میں جائیں گے دیکھیں گے کہ ان کے گھروں کے پاس نورانی ممبروں پر فرشتے ان کے استقبال کے لیے بیٹھے ہوئے ہیں وہ ان کا شاندار استقبال کریں گے۔، مبارک باد دیں گے، مصافحہ کریں گے، پھر یہ اپنے گھروں میں داخل ہوں گے۔
انعامات الٰہی وہاں موجود پائیں گے، اپنے محلات کے پاس وہ جنتیں ہری بھری پائیں گے اور جو پھلی پھولی جن میں دو چشمے پوری روانی سے جاری ہوں گے اور ہر قسم کے جوڑ دار میوے ہوں گے اور خیموں میں پاک دامن بھولی بھالی پردہ نشین حوریں ہوں گی۔ جب یہ یہاں پہنچ کر راحت و آرام میں ہوں گے اس وقت اللہ رب العزت فرمائے گا ” میرے پیارے بندو تم نے میرے وعدے سچے پائے؟ کیا تم میرے ثوابوں سے خوش ہو گئے؟ “ وہ کہیں گے ”اللہ ہم خوب خوش ہو گئے؟ بہت ہی راضی رضامند ہیں دل سے راضی ہیں کلی کلی کھلی ہوئی ہے تو بھی ہم سے خوش رہ۔“
اللہ تعالیٰ فرمائے گا ” اگر میری رضا مندی نہ ہوتی تو میں اپنے اس مہمان خانے میں تمہیں کیسے داخل ہونے دیتا؟ اپنا دیدار کیسے کراتا؟ میرے فرشتے تم سے مصافحہ کیوں کرتے؟ تم خوش رہو باآرام رہو تمہیں مبارک ہو تم پھلو پھولو اور سکھ چین اٹھاؤ میرے یہ انعامات گھٹنے اور ختم ہونے والے نہیں “۔
”اس وقت وہ کہیں گے اللہ ہی کی ذات سزاوار تعریف ہے جس نے ہم سے غم و رنج کو دور کر دیا اور ایسے مقام پر پہنچایا کہ جہاں ہمیں کوئی تکلیف کوئی مشقت نہیں یہ اسی کا فضل ہے وہ بڑا ہی بخشنے والا اور قدر دان ہے۔“ یہ سیاق غریب ہے اور یہ اثر عجیب ہے ہاں اس کے بعض شواہد بھی موجود ہیں۔
چنانچہ صحیحین میں ہے کہ اللہ تعالیٰ اس بندے سے جو سب سے اخیر میں جنت میں جائے گا فرمائے گا مانگ جو مانگتا جائے گا اور اللہ کریم دیتا جائے گا یہاں تک کہ اس کا سوال پوار ہو جائے گا اور پائے گا۔ اب اس کے سامنے کوئی خواہش باقی نہیں رہے گی تو اب اللہ تعالیٰ خود اسے یاد دلائے گا کہ یہ مانگ یہ مانگ یہ مانگے گا اور پائے گا۔ پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا یہ سب میں نے تجھے دیا اور اتنا ہی اور بھی دس مرتبہ عطا فرمایا ۔ [صحیح بخاری:7437]
صحیح مسلم شریف کی قدسی حدیث میں ہے کہ اے میرے بندو تمہارے اگلے پچھلے انسان جنات سب ایک میدان میں کھڑے ہو جائیں اور مجھ سے دعائیں کریں اور مانگیں میں ہر ایک کے تمام سوالات پورے کروں گا لیکن میرے ملک میں اتنی بھی کمی نہ آئے گی جتنی کسی سوئی کو سمندر میں ڈبونے سے سمندر کے پانی میں آئے ، الخ۔ [صحیح مسلم:2577]
خالد بن معدان کہتے ہیں جنت کے ایک درخت کا نام طوبیٰ ہے اس میں تھن ہیں جن سے جنتیوں کے بچے دودھ پیتے ہیں کچے گرے ہوئے بچے جنت کی نہروں میں ہیں قیامت کے قائم ہونے تک پھر چالیس سال کے بن کر اپنے ماں باپ کے ساتھ جنت میں رہیں گے۔