تفسير ابن كثير



سب پہ محیط علم ٭٭

اللہ کا علم تمام مخلوق کو گھیرے ہوئے ہے۔ «وَإِن تَجْهَرْ بِالْقَوْلِ فَإِنَّهُ يَعْلَمُ السِّرَّ وَأَخْفَى» [20-طه:7] ‏‏‏‏ ” کوئی چیز اس کے علم سے باہر نہیں، پست اور بلند ہر آواز وہ سنتا ہے چھپا کھلا سب جانتا ہے “۔ «وَيَعْلَمُ مَا تُخْفُونَ وَمَا تُعْلِنُونَ» [27-النمل:25] ‏‏‏‏ ” تم چھپاؤ یا کھولو اس سے مخفی نہیں “۔

صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں وہ اللہ پاک ہے جس کے سننے نے تمام آوازوں کو گھیرا ہوا ہے، قسم اللہ کی اپنے خاوند کی شکایت لے کر آنے والی عورت نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس طرح کانا پھوسی کی کہ میں پاس ہی گھر میں بیٹھی ہوئی تھی لیکن میں پوری طرح نہ سن سکی لیکن اللہ تعالیٰ نے آیتیں «قَدْ سَمِعَ اللَّـهُ قَوْلَ الَّتِي تُجَادِلُكَ فِي زَوْجِهَا وَتَشْتَكِي إِلَى اللَّـهِ وَاللَّـهُ يَسْمَعُ تَحَاوُرَكُمَا إِنَّ اللَّـهَ سَمِيعٌ بَصِيرٌ» [58-المجادلہ:1] ‏‏‏‏ اتاریں یعنی ” اس عورت کی یہ تمام سرگوشی اللہ تعالیٰ سن رہا تھا “ ۔ [صحیح بخاری:7386قبل الحدیث] ‏‏‏‏

وہ سمیع وبصیر ہے، جو اپنے گھر کے تہ خانے میں راتوں کے اندھیرے میں چھپا ہوا ہو وہ اور جو دن کے وقت کھلم کھلا آباد راستوں میں چلا جا رہا ہو وہ علم اللہ میں برابر ہیں۔ جیسے آیت «اَلَآ اِنَّھُمْ يَثْنُوْنَ صُدُوْرَھُمْ لِيَسْتَخْفُوْا مِنْهُ اَلَا حِيْنَ يَسْتَغْشُوْنَ ثِيَابَھُمْ يَعْلَمُ مَا يُسِرُّوْنَ وَمَا يُعْلِنُوْنَ اِنَّهٗ عَلِيْمٌ بِذَات الصُّدُوْرِ» [11-ھود:5] ‏‏‏‏ میں فرمایا ہے۔

اور آیت «وَمَا تَكُوْنُ فِيْ شَاْنٍ وَّمَا تَتْلُوْا مِنْهُ مِنْ قُرْاٰنٍ وَّلَا تَعْمَلُوْنَ مِنْ عَمَلٍ اِلَّا كُنَّا عَلَيْكُمْ شُهُوْدًا اِذْ تُفِيْضُوْنَ فِيْهِ» [10-یونس:61] ‏‏‏‏ میں ارشاد ہوا ہے کہ ” تمہارے کسی کام کے وقت ہم ادھر ادھر نہیں ہوتے، کوئی ذرہ ہماری معلومات سے خارج نہیں “۔

اللہ کے فرشتے بطور نگہبان اور چوکیدار کے بندوں کے اردگرد مقرر ہیں، جو انہیں آفتوں سے اور تکلیفوں سے بچاتے رہتے ہیں جیسے کہ اعمال پر نگہبان فرشتوں کی اور جماعت ہے، جو باری باری پے در پے آتے جاتے رہتے ہیں، رات کے الگ دن کے الگ۔ اور جیسے کہ دو فرشتے انسان کے دائیں بائیں اعمال لکھنے پر مقرر ہیں، داہنے والا نیکیاں لکھتا ہے بائیں جانب والا بدیاں لکھتا ہے۔

اسی طرح دو فرشتے اس کے آگے پیچھے ہیں جو اس کی حفاظت وحراست کرتے رہتے ہیں۔ پس ہر انسان ہر وقت چار فرشتوں میں رہتا ہے، دو کاتب اعمال دائیں بائیں دو نگہبانی کرنے والے آگے پیچھے، پھر رات کے الگ دن کے الگ۔

چنانچہ حدیث میں ہے تم میں فرشتے پے در پے آتے جاتے رہتے ہیں، رات کے اور دن کے ان کا میل صبح اور عصر کی نماز میں ہوتا ہے رات گزارنے والے آسمان پر چڑھ جاتے ہیں۔ باوجود علم کے اللہ تبارک وتعالیٰ ان سے پوچھتا ہے کہ تم نے میرے بندوں کو کس حالت میں چھوڑا؟ وہ جواب دیتے ہیں کہ ہم گئے تو انہیں نماز میں پایا اور آئے تو نماز میں چھوڑ آئے ۔ [صحیح بخاری:555] ‏‏‏‏

اور حدیث میں ہے تمہارے ساتھ وہ ہیں جو سوا پاخانے اور جماع کے وقت کے تم سے علیحدہ نہیں ہوتے۔ پس تمہیں ان کا لحاظ، ان کی شرم، ان کا اکرام اور ان کی عزت کرنی چاہیئے ۔ [سنن ترمذي:2800،قال الشيخ الألباني:ضعیف] ‏‏‏‏

پس جب اللہ کو کوئی نقصان بندے کو پہنچانا منظور ہوتا ہے، بقول سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما محافظ فرشتے اس کام کو ہو جانے دیتے ہیں۔ مجاہد رحمہ اللہ کہتے ہیں ہر بندے کے ساتھ اللہ کی طرف سے موکل ہے جو اسے سوتے جاگتے جنات سے انسان سے زہریلے جانوروں اور تمام آفتوں سے بچاتا رہتا ہے ہر چیز کو روک دیتا ہے مگر وہ جسے اللہ پہنچانا چاہے۔

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں یہ دنیا کے بادشاہوں امیروں وغیرہ کا ذکر ہے جو پہرے چوکی میں رہتے ہیں۔‏‏‏‏ ضحاک رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ سلطان اللہ کی نگہبانی میں ہوتا ہے «اَمْرِ الله» سے یعنی مشرکین اور ظاہرین سے۔‏‏‏‏ «وَاللهُ اَعْلَمُ»

ممکن ہے غرض اس قول سے یہ ہو کہ جیسے بادشاہوں امیروں کی چوکیداری سپاہی کرتے ہیں اسی طرح بندے کے چوکیدار اللہ کی طرف سے مقرر شدہ فرشتے ہوتے ہیں۔

ایک غریب روایت میں تفسیر ابن جریر میں وارد ہوا ہے کہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ فرمائیے بندے کے ساتھ کتنے فرشتے ہوتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایک تو دائیں جانب نیکیوں کا لکھنے والا جو بائیں جانب والے پر امیر ہے جب تو کوئی نیکی کرتا ہے وہ ایک کی بجائے دس لکھ لی جاتی ہیں جب تو کوئی برائی کرے تو بائیں جانب والا دائیں والے سے اس کے لکھنے کی اجازت طلب کرتا ہے وہ کہتا ہے ذرا ٹھر جاؤ شاید یہ توبہ واستغفار کر لے تین مرتبہ وہ اجازت مانگتا ہے تب تک بھی اگر اس نے توبہ نہ کی تو یہ نیکی کا فرشتہ اس سے کہتا ہے اب لکھ لے اللہ ہمیں اس سے بچائے یہ تو بڑا برا ساتھی ہے۔ اسے اللہ کا لحاظ نہیں یہ اس سے نہیں شرماتا ۔

اللہ کا فرمان ہے کہ «مَّا يَلْفِظُ مِن قَوْلٍ إِلَّا لَدَيْهِ رَقِيبٌ عَتِيدٌ» [50-ق:18] ‏‏‏‏ ” انسان جو بات زبان پر لاتا ہے اس پر نگہبان متعین اور مہیا ہیں “، اور دو فرشتے تیرے آگے پیچھے ہیں فرمان الٰہی ہے «لَهُ مُعَقِّبَاتٌ مِّن بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ يَحْفَظُونَهُ مِنْ أَمْرِ اللَّهِ» [13-الرعد:11] ‏‏‏‏ الخ، ” اور ایک فرشتہ تیرے ماتھے کا بال تھامے ہوئے ہے جب تو اللہ کے لیے تواضع اور فروتنی کرتا ہے وہ تجھے پست اور عاجز کر دیتا ہے اور دو فرشتے تیرے ہونٹوں پر ہیں، جو درود تو مجھ پر پڑھتا ہے اس کی وہ حفاظت کرتے ہیں۔ ایک فرشتہ تیرے منہ پر کھڑا ہے کہ کوئی سانپ وعیر جیسی چیز تیرے حلق میں نہ چلی جائے اور دو فرشتے تیری آنکھوں پر ہیں “ ۔

پس یہ دس فرشتے ہر بنی آدم کے ساتھ ہیں پھر دن کے الگ ہیں۔ اور رات کے الگ ہیں یوں ہر شخص کے ساتھ بیس فرشتے منجانب اللہ موکل ہیں۔ ادھر بہکانے کے لیے دن بھر تو ابلیس کی ڈیوٹی رہتی ہے اور رات کو اس کی اولاد کی ۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:30211/16:ضعیف] ‏‏‏‏

مسند احمد میں ہے تم میں سے ہر ایک کے ساتھ جن ساتھی ہے اور فرشتہ ساتھی ہے لوگوں نے کہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بھی؟ فرمایا: ہاں لیکن اللہ نے اس پر میری مدد کی ہے، وہ مجھے بھلائی کے سوا کچھ نہیں کہتا ۔ [صحیح مسلم:2814] ‏‏‏‏

یہ فرشتے بحکم رب اس کی نگہبانی رکھتے ہیں۔ بعض قرأتوں میں «مِنْ أَمْرِ اللَّهِ» کے بدلے «بِاَمْرِ اللَّهِ» ہے۔ کعب رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ اگر ابن آدم کے لیے ہر نرم وسخت کھل جائے تو البتہ ہر چیز اسے خود نظر آنے لگے۔ اور اگر اللہ کی طرف سے یہ محافظ فرشتے مقرر نہ ہوں جو کھانے پینے اور شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں تو واللہ تم تو اچک لیے جاؤ۔ ابوامامہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں ہر آدمی کے ساتھ محافظ فرشتہ ہے، جو تقدیری امور کے سوا اور تمام بلاؤں کو اس سے دفعہ کرتا رہتا ہے۔

ایک شخص قبیلہ مراد کا سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے پاس آیا انہیں نماز میں مشغول دیکھا تو کہا کہ قبیلہ مراد کے آدمی آپ رضی اللہ عنہ کے قتل کا ارادہ کر چکے ہیں، آپ رضی اللہ عنہ پہرہ چوکی مقرر کر لیجئے۔ آپ نے فرمایا ہر شخص کے ساتھ دو فرشتے اس کے محافظ مقرر ہیں بغیر تقدیر کے لکھے کے کسی برائی کو انسان تک پہنچنے نہیں دیتے سنو اجل ایک مضبوط قلعہ ہے اور عمدہ ڈھال ہے۔ اور کہا گیا ہے کہ اللہ کے حکم سے اس کی حفاظت کرتے رہتے ہیں۔‏‏‏‏

جیسے حدیث شریف میں ہے لوگوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ یہ جھاڑ پھونک جو ہم کرتے ہیں کیا اس سے اللہ کی مقرر کی ہوئی تقدیر ٹل جاتی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ خود اللہ کی مقرر کردہ ہے ۔ [سنن ترمذي:2065،قال الشيخ الألباني:ضعیف] ‏‏‏‏

ابن ابی حاتم میں ہے کہ بنی اسرائیل کے نبیوں میں سے ایک کی طرف وحی الٰہی ہوئی کہ اپنی قوم سے کہہ دے کہ جس بستی والے اور جس گھر والے اللہ کی اطاعت گزاری کرتے کرتے اللہ کی معصیت کرنے لگتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی راحت کی چیزوں کو ان سے دور کر کے انہیں وہ چیزیں پہنچاتا ہے جو انہیں تکلیف دینے والی ہوں ۔ اس کی تصدیق قرآن کی آیت «اِنَّ اللّٰهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰى يُغَيِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِهِمْ وَاِذَآ اَرَاد اللّٰهُ بِقَوْمٍ سُوْءًا فَلَا مَرَدَّ لَهٗ وَمَا لَهُمْ مِّنْ دُوْنِهٖ مِنْ وَّالٍ» [13-الرعد:11] ‏‏‏‏ سے بھی ہوتی ہے۔ امام ابن ابی شیبہ کی کتاب صفۃ العرش میں یہ روایت مرفوعاً بھی آئی ہے۔

عمیر بن عبدالملک کہتے ہیں کہ کوفے کے منبر پر سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے ہمیں خطبہ سنایا جس میں فرمایا کہ اگر میں چپ رہتا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بات شروع کرتے اور جب میں پوچھتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے جواب دیتے۔ ایک دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ” مجھے قسم ہے اپنی عزت وجلال کی اپنی بلندی کی جو عرش پر ہے کہ جس بستی کے جس گھر کے لوگ میری نافرمانیوں میں مبتلا ہوں پھر انہیں چھوڑ کر میرے فرمانبرداری میں لگ جائیں تو میں بھی اپنے عذاب اور دکھ ان سے ہٹا کر اپنی رحمت اور سکھ انہیں عطا فرماتا ہوں “ ۔ یہ حدیث غریب ہے اور اس کی سند میں ایک راوی غیر معروف ہے۔



https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.