عموماً انسان زندگی میں جن اعمال پر رہتا ہے، اسی پر موت بھی آتی ہے اور جس پر مرتا ہے، اس پر اٹھے گا بھی۔ یہی اللہ تعالیٰ کا دستور ہے کہ بھلائی کے قصد کرنے والے کو بھلائی کی توفیق بھی دی جاتی ہے۔ بھلائی اس پر آسان بھی کر دی جاتی ہے اور اسے ثابت قدم بھی رکھا جاتا ہے۔ کوئی شک نہیں کہ حدیث میں یہ بھی ہے کہ انسان جنتیوں کے کام کرتے کرتے جنت میں ایک ہاتھ دور رہ جاتا ہے کہ اس کی تقدیر اس پر غالب آتی ہے اور وہ جہنمیوں کا کام کر کے جہنمی بن جاتا ہے اور کبھی اس کے خلاف بھی ہوتا ہے۔ [صحیح بخاری:6594] لیکن اس سے مطلب یہ ہے کہ یہ کام اچھے برے ظاہری ہوتے ہیں، حقیقی نہیں ہوتے۔ چنانچہ بعض روایات میں یہ لفظ بھی ہیں۔ [صحیح بخاری:2898] قرآن کہتا ہے سخاوت، تقویٰ اور لا الہٰ الا اللہ کی تصدیق کرنے والے کو ہم آسانی کا راستہ آسان کر دیتے ہیں اور بخل و بےپرواہی اور بھلی بات کی تکذیب کرنے والوں کے لیے ہم سختی کی راہ آسان کر دیتے ہیں۔ [92-الليل:5-10]