تفسير ابن كثير



اعتراض برائے اعتراض ٭٭

کافر لوگ ازروئے اعتراض کہا کرتے تھے کہ جس طرح اگلے پیغمبر معجزے لے کر آئے، یہ پیغمبر کیوں نہیں لائے؟ مثلاً صفا پہاڑ سونے کا بنا دیتے یا مثلاً عرب کے پہاڑ یہاں سے ہٹ جاتے اور یہاں سبزہ اور نہریں ہو جاتیں۔ پس ان کے جواب میں اور جگہ ہے کہ «وَمَا مَنَعَنَا أَن نُّرْسِلَ بِالْآيَاتِ إِلَّا أَن كَذَّبَ بِهَا الْأَوَّلُونَ وَآتَيْنَا ثَمُودَ النَّاقَةَ مُبْصِرَةً فَظَلَمُوا بِهَا وَمَا نُرْسِلُ بِالْآيَاتِ إِلَّا تَخْوِيفًا» [17-الاسراء:59] ‏‏‏‏ ” ہم یہ معجزے بھی دکھا دیتے مگر اگلوں کی طرح ان کی جھٹلانے پر پھر اگلوں جیسے ہی عذاب ان پر آ جاتے۔ تو ان کی باتوں سے مغموم ومتفکر نہ ہو جایا کر، تیرے ذمے تو صرف تبلیغ ہی ہے تو ہادی نہیں، ان کے نہ ماننے سے تیری پکڑ نہ ہو گی “۔ «لَّيْسَ عَلَيْكَ هُدَاهُمْ وَلَـٰكِنَّ اللَّـهَ يَهْدِي مَن يَشَاءُ» [2-البقرہ:272] ‏‏‏‏ ” ہدایت اللہ کے ہاتھ ہے، یہ تیرے بس کی بات نہیں ہر قوم کے لیے رہبر اور داعی ہے “۔ یا یہ مطلب ہے کہ ” ہادی میں ہوں تو تو ڈرانے والا ہے “۔

اور آیت میں ہے «وَاِنْ مِّنْ اُمَّةٍ اِلَّا خَلَا فِيْهَا نَذِيْرٌ» [35-فاطر:24] ‏‏‏‏ ” ہر امت میں ڈرانے والا گزرا ہے “ اور مراد یہاں ہادی سے پیغمبر ہے۔

پس پیشوا رہبر ہر گروہ میں ہوتا ہے، جس کے علم وعمل سے دوسرے راہ پا سکیں، اس امت کے پیشوا نبی کریم محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ ایک نہایت ہی منکر واہی روایت میں ہے کہ اس آیت کے اترنے کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے سینہ پر ہاتھ رکھ کے فرمایا: منذر تو میں ہوں اور علی رضی اللہ عنہ کے کندھے کی طرف اشارہ کر کے فرمایا: اے علی! تو ہادی ہے، میرے بعد ہدایات پانے والے تجھ سے ہدایت پائیں گے ۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:20161:قال الشيخ الألباني:موضوع] ‏‏‏‏

سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ اس جگہ ہادی سے مراد قریش کا ایک شخص ہے۔‏‏‏‏ جنید کہتے ہیں وہ علی رضی اللہ عنہ خود ہیں۔ ابن جریر رحمہ اللہ نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ہادی ہونے کی روایت کی ہے لیکن اس میں سخت نکارت ہے۔



https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.