6۔ 1 جیسے وہ کہا کرتے تھے کہ ' ہم اللہ کے بیٹے ہیں اور اس کے چہیتے ہیں (وَقَالَتِ الْيَھُوْدُ وَالنَّصٰرٰى نَحْنُ اَبْنٰۗؤُا اللّٰهِ وَاَحِبَّاۗؤُهٗ ۭقُلْ فَلِمَ يُعَذِّبُكُمْ بِذُنُوْبِكُمْ ۭ بَلْ اَنْتُمْ بَشَرٌ مِّمَّنْ خَلَقَ ۭيَغْفِرُ لِمَنْ يَّشَاۗءُ وَيُعَذِّبُ مَنْ يَّشَاۗءُ ۭوَلِلّٰهِ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا ۡ وَاِلَيْهِ الْمَصِيْرُ 18) 5۔ المائدہ:18) اور دعویٰ کرتے تھے کہ ' جنت میں صرف وہی جائے گا جو یہودی یا نصرانی ہوگا ' (وَقَالُوْا لَنْ يَّدْخُلَ الْجَنَّةَ اِلَّا مَنْ كَانَ ھُوْدًا اَوْ نَصٰرٰى ۭ تِلْكَ اَمَانِيُّھُمْ ۭ قُلْ ھَاتُوْا بُرْھَانَكُمْ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ 111۔) 2۔ البقرۃ:111) 6۔ 2 تاکہ تمہیں وہ اعزازو اکرام حاصل ہو جو تمہارے غرور کے مطابق تمہارے لئے ہونا چاہیئے، 6۔ 3 اس لیے کہ جس کو یہ علم ہو کہ مرنے کے بعد اس کے لیے جنت ہے وہ تو وہاں جلد پہنچنے کا خواہش مند ہوتا ہے حافظ ابن کثیر نے اس کی تفسیر دعوت مباہلہ سے کی ہے۔ یعنی اس میں ان سے کہا گیا ہے کہ اگر تم نبوت محمدیہ کے انکار اور اپنے دعوائے ولایت و محبوبیت میں سچے ہو تو مسلمانوں کے ساتھ مباہلہ کرلو۔ یعنی مسلمان اور یہودی دونوں مل کر بارگاہ الہی میں دعا کریں کہ یا اللہ ہم دونوں میں جو جھوٹا ہے اسے موت سے ہمکنار فرما دے۔