حضرت یوسف علیہ السلام کا تمام وکمال قصہ بیان فرما کر کس طرح بھائیوں نے ان کے ساتھ برائی کی اور کس طرح ان کی جان تلف کرنی چاہی اور اللہ نے انہیں کس طرح بچایا اور کس طرح اوج وترقی پر پہنچایا، اب اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتا ہے کہ یہ اور اس جیسی اور چیزیں سب ہماری طرف سے تمہیں دی جاتی ہیں تاکہ لوگ ان سے نصیحت حاصل کریں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مخالفین کی بھی آنکھیں کھلیں اور ان پر ہماری حجت قائم ہو جائے تو اس وقت کچھ ان کے پاس تھوڑے ہی تھا۔ جب وہ یوسف علیہ السلام کے ساتھ کھلا داؤ فریب کر رہے تھے۔ کنویں میں ڈالنے کے لیے سب مستعد ہو گئے تھے۔ صرف ہمارے بتانے سکھانے سے تجھے یہ واقعات معلوم ہوئے۔
جیسے مریم علیہ السلام کے قصے کو بیان فرماتے ہوئے ارشاد ہوا ہے کہ «وَمَا كُنتَ لَدَيْهِمْ إِذْ يُلْقُونَ أَقْلَامَهُمْ أَيُّهُمْ يَكْفُلُ مَرْيَمَ وَمَا كُنتَ لَدَيْهِمْ إِذْ يَخْتَصِمُونَ»[ 3-آل عمران: 44 ] جب وہ قلمیں ڈال رہے تھے کہ مریم کو کون پالے، تو اس وقت ان کے پاس نہ تھا۔ الخ۔ «وَمَا كُنتَ بِجَانِبِ الْغَرْبِيِّ إِذْ قَضَيْنَا إِلَىٰ مُوسَى الْأَمْرَ وَمَا كُنتَ مِنَ الشَّاهِدِينَ»[ 28-القصص: 44 ] حضرت موسیٰ علیہ السلام کے قصے میں بھی اس قسم کا ارشاد فرمایا ہے کہ بجانب مغرب جب موسیٰ علیہ السلام کو اپنی باتیں سمجھا رہے تھے تو وہاں نہ تھا۔ «وَمَا كُنتَ ثَاوِيًا فِي أَهْلِ مَدْيَنَ تَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِنَا وَلَـٰكِنَّا كُنَّا مُرْسِلِينَ»[ 28-القصص: 45 ] اسی طرح اہل مدین کا معاملہ بھی تجھ سے پوشیدہ ہی تھا۔ اور نہ تم مدین والوں میں رہنے والے تھے کہ ان کو ہماری آیتیں پڑھ پڑھ کر سناتے تھے۔ ہاں ہم ہی تو پیغمبر بھیجنے والے تھے
«مَا كَانَ لِيَ مِنْ عِلْمٍ بِالْمَلَإِ الْأَعْلَىٰ إِذْ يَخْتَصِمُونَ إِن يُوحَىٰ إِلَيَّ إِلَّا أَنَّمَا أَنَا نَذِيرٌ مُّبِينٌ»[ 38-ص: 69، 70 ] ملاء اعلٰی کی آپس کی گفتگو میں تو موجود نہ تھا۔ یہ سب ہماری طرف سے بذریعہ وحی تجھے بتایا گیا یہ کھلی دلیل ہے تیری رسالت ونبوت کی کہ گزشتہ واقعات تو اس طرح کھول کھول کر لوگوں کے سامنے بیان کرتا ہے کہ گویا تو نے آپ بچشم خود دیکھے ہیں اور تیرے سامنے ہی گزرے ہیں۔ پھر یہ واقعات نصیحت وعبرت حکمت وموعظت سے پر ہیں، جن سے انسانوں کی دین و دنیا سنور سکتی ہے۔ باوجود اس کے بھی اکثر لوگ ایمان سے کورے رہے جاتے ہیں گو تو لاکھ چاہے کہ یہ مومن بن جائیں اور آیت میں ہے «وَإِن تُطِعْ أَكْثَرَ مَن فِي الْأَرْضِ يُضِلُّوكَ عَن سَبِيلِ اللَّـهِ»[ 6-الانعام: 116 ] اگر تو انسانوں کی اکثریت کی اطاعت کرے گا تو وہ تجھے اللہ کی راہ سے بہکا اور بھٹکا دیں گے۔ بہت سے واقعات کے بیان کے بعد ہر ایک واقعہ کے ساتھ قرآن نے فرمایا ہے کہ گو اس میں بڑا زبردست نشان ہے لیکن پھر بھی اکثر لوگ ماننے والے نہیں۔ آپ جو کچھ بھی جفاکشی کر رہے ہیں اور اللہ کی مخلوق کو راہ حق دکھا رہے ہیں، اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنا دنیوی نفع ہرگز مقصود نہیں، آپ ان سے کوئی اجرت اور کوئی بدلہ نہیں چاہتے بلکہ یہ صرف اللہ کی رضا جوئی کے لیے مخلوق کے نفع کے لیے ہے۔ یہ تو تمام جہان کے لیے سراسر ذکر ہے کہ وہ راہ راست پائیں نصیحت حاصل کریں عبرت پکڑیں ہدایت ونجات پائیں۔