اہل حرم کے لیے یہ دعا بھی ہے کہ آپ علیہ السلام کی اولاد میں سے ہی رسول ان میں آئے چنانچہ یہ بھی پوری ہوئی۔ مسند احمد ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں“ میں اللہ جل شانہ کے نزدیک آخری نبی اس وقت سے ہوں جبکہ آدم علیہ السلام ابھی مٹی کی صورت میں تھے“ میں تمہیں ابتدائی امر بتاؤں میں اپنے باپ ابراہیم علیہ السلام کی دعا اور عیسیٰ علیہ السلام کی بشارت ہوں اور اپنی ماں کا خواب ہوں۔“ انبیا علیہ السلام کی واکدہ کو ایسے ہی خواب آتے ہیں۔ [مسند احمد:127/4:ضعیف] سیدنا ابو امامہ رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ سوال کیا کہ یا رسول اللہ ! صلی اللہ علیہ وسلم اپنی نبوت کا شروع تو ہمیں بتائیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”میرے والد حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا اور میری خوشخبری جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے دی اور میری ماں نے دیکھا کہ گویا ان میں سے ایک نور نکلا، جس سے شام کے محل چمکا دئیے۔ [مسند احمد:262/5:صحیح لغیرہ] مطلب یہ ہے کہ دنیا میں شہرت کا ذریعہ یہ چیزیں ہوئی۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ صاحبہ کا خواب بھی عرب میں پہلے ہی مشہور ہو گیا تھا اور وہ کہتے ہیں کہ بطن آمنہ سے کوئی بڑا شخص پیدا ہو گا بنی اسرائیل کے نبیوں کے ختم کرنے والے روح اللہ نے تو بنی اسرائیل میں خطبہ پڑھتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا صاف نام بھی لے دیا اور فرمایا لوگو میں تمہاری طرف اللہ کا رسول ہوں، مجھ سے پہلے کی کتاب توراۃ کی میں تصدیق کرتا ہوں اور میرے بعد آنے والے نبی کی میں تمہیں بشارت دیتا ہوں جن کا نام احمد ہے صلی اللہ علیہ وسلم [61-الصف:6] اسی کی طرف اس حدیث میں اشارہ ہے، خواب میں نور سے شام کے محلات کا چمک اٹھنا اشارہ ہے، اس امر کی طرف کہ دین وہاں جم جائے گا۔
بلکہ روایتوں سے ثابت ہے کہ آخر زمانہ میں شام اسلام اور اہل اسلام کا مرکز بن جائے گا۔ شام کے مشہور شہر دمشق ہی میں عیسیٰ علیہ السلام شرقی سفید مینارہ پر نازل ہوں گے۔ بخاری مسلم میں ہے“ میری امت کی ایک جماعت حق پر قائم رہے گی، ان کے مخالفین انہیں نقصان نہ پہنچا سکیں گے یہاں تک کہ امر اللہ آ جائے“[صحیح بخاری:7460] صحیح بخاری میں اتنی زیادتی اور ہے کہ“ وہ شام میں ہوں گے۔“[صحیح بخاری:3641]
ابوالعالیہ سے مروی ہے کہ یہ بھی اسی مقبول دعا کا ایک حصہ ہے کہ اور یہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم آخر زمانہ میں مبعوث ہوں گے۔“ کتاب سے مراد قرآن اور حکمت سے مراد سنت و حدیث ہے حسن اور قتادہ اور مقاتل بن حیان اور ابومالک رحمہ اللہ علیہم وغیرہ کا یہی فرمان ہے۔ [تفسیر ابن ابی حاتم:390/1] اور حکمت سے مراد دین کی سمجھ بوجھ بھی ہے۔ پاک کرنا یعنی طاعت و اخلاص سیکھنا، بھلائیاں کرانا، برائیوں سے بچانا، اطاعت الٰہی کر کے رضائے رب حاصل کرنا، نافرمانی سے بچ کر ناراضگی سے محفوظ رہنا۔ اللہ عزیز ہے جسے کوئی چیز عاجز نہیں کر سکتی جو ہر چیز پر غالب ہے وہ حکیم ہے یعنی اس کا کوئی قول و فعل حکمت سے خالی نہیں، وہ ہر چیز کو اپنے محل پر ہی حکمت وعدل و علم کے ساتھ رکھتا ہے۔