22۔ 1 اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے وضاحت فرمائی کہ جو ایمان باللہ اور ایمان بالآخرت میں کامل ہوتے ہیں وہ اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمنوں سے محبت اور تعلق خاطر نہیں رکھتے گویا ایمان اور اللہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمنوں کی محبت ونصرت ایک دل میں جمع نہیں ہوسکتے یہ مضمون قرآن مجید میں اور بھی کئی مقامات پر بیان کیا گیا ہے مثلا (لَا يَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُوْنَ الْكٰفِرِيْنَ اَوْلِيَاۗءَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِيْنَ ۚ وَمَنْ يَّفْعَلْ ذٰلِكَ فَلَيْسَ مِنَ اللّٰهِ فِيْ شَيْءٍ اِلَّآ اَنْ تَتَّقُوْا مِنْھُمْ تُقٰىةً ۭ وَيُحَذِّرُكُمُ اللّٰهُ نَفْسَهٗ ۭ وَاِلَى اللّٰهِ الْمَصِيْرُ 28) 3۔ آل عمران:28) (قُلْ اِنْ كَانَ اٰبَاۗؤُكُمْ وَاَبْنَاۗؤُكُمْ وَاِخْوَانُكُمْ وَاَزْوَاجُكُمْ وَعَشِيْرَتُكُمْ وَاَمْوَالُۨ اقْتَرَفْتُمُوْهَا وَتِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَمَسٰكِنُ تَرْضَوْنَهَآ اَحَبَّ اِلَيْكُمْ مِّنَ اللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ وَجِهَادٍ فِيْ سَبِيْلِهٖ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰي يَاْتِيَ اللّٰهُ بِاَمْرِهٖ ۭ وَاللّٰهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْفٰسِقِيْنَ 24) 9۔ التوبہ:24)۔ وغیرہ۔ 22۔ 2 اس لیے کہ ان کا ایمان ان کو ان کی محبت سے روکتا ہے اور ایمان کی رعایت ابوت بنوت اخوت اور خاندان و برادری کی محبت و رعایت سے زیادہ اہم اور ضروری ہے چناچہ صحابہ کرام ؓ نے عملا ایسا کر کے دکھایا ایک مسلمان صحابی نے اپنے باپ اپنے بیٹے اپنے بھائی اور اپنے چچا ماموں اور دیگر رشتے داروں کو قتل کرنے سے گریز نہیں کیا اگر وہ کفر کی حمایت میں کافروں کے ساتھ لڑنے والوں میں شامل ہوتے سیر و تواریخ کی کتابوں میں یہ مثالیں درج ہیں اسی ضمن میں جنگ بدر کا واقعہ بھی قابل ذکر ہے جب اسیران بدر کے بارے میں مشورہ ہوا کہ ان کو فدیہ لے کر چھوڑ دیا جائے یا قتل کردیا جائے تو حضرت عمر ؓ نے مشورہ دیا تھا کہ ان کافر قیدیوں میں سے ہر قیدی کو اس کے رشتے دار کے سپرد کردیا جائے جسے وہ خود اپنے ہاتھوں سے قتل کرے اور اللہ تعالیٰ کو حضرت عمر ؓ کا یہی مشورہ پسند آیا تھا۔ تفصیل کے لیے دیکھئے (مَا كَانَ لِنَبِيٍّ اَنْ يَّكُوْنَ لَهٗٓ اَسْرٰي حَتّٰي يُثْخِنَ فِي الْاَرْضِ ۭتُرِيْدُوْنَ عَرَضَ الدُّنْيَا ڰ وَاللّٰهُ يُرِيْدُ الْاٰخِرَةَ ۭوَاللّٰهُ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ 67) 8۔ الانفال:67) کا حاشیہ۔ 22۔ 3 یعنی راسخ اور مضبوط کردیا ہے۔ 22۔ 4 روح سے مراد اپنی نصرت خاص، یا نور ایمان ہے جو انہیں ان کی مذکورہ خوبی کی وجہ سے حاصل ہوا۔ 22۔ 5 یعنی جب یہ اولین مسلمان صحابہ کرام ؓ ایمان کی بنیاد پر اپنے عزیز واقارب سے ناراض ہوگئے حتی کہ انہیں اپنے ہاتھوں سے قتل تک کرنے میں تامل نہیں کیا تو اس کے بدلے میں اللہ نے ان کو اپنی رضامندی سے نواز دیا اور ان پر اس طرح اپنے انعامات کی بارش فرمائی کہ وہ بھی اللہ سے راضی ہوگئے اس لیے آیت میں بیان کردہ اعزاز رضی اللہ عنھم ورضوا عنہ۔ اگرچہ خاص صحابہ کرام ؓ کے بارے میں نازل نہیں ہوا ہے تاہم وہ اس کا مصداق اولین اور مصداق اتم ہیں اسی لیے اس کے لغوی مفہوم کو سامنے رکھتے ہوئے مذکورہ صفات سے متصف ہر مسلمان ؓ کا مستحق بن سکتا ہے جیسے لغوی معنی کے لحاظ سے ہر مسلمان شخص پر (علیہ الصلوۃ والسلام) کا دعائیہ جملے کے طور پر اطلاق کیا جاسکتا ہے لیکن اہل سنت نے ان کے مفہوم لغوی سے ہٹ کر ان کو صحابہ کرام ؓ اور انبیاء (علیہم السلام) کے علاوہ کسی اور کے لیے بولنا لکھنا جائز قرار نہیں دیا ہے۔ یہ گویا شعار ہیں ؓ صحابہ کے لیے اور علیہم الصلواۃ والسلام انبیائے کرام کے لیے یہ ایسے ہی ہے جیسے ؒ اللہ کی رحمت اس پر ہو یا اللہ اس پر رحم فرمائے کا اطلاق لغوی مفہوم کی رو سے زندہ اور مردہ دونوں پر ہوسکتا ہے کیونکہ یہ ایک دعائیہ کلمہ ہے جس کے ضرورت مند زندہ اور مردہ دونوں ہی ہیں لیکن ان کا استعمال مردوں کے لیے خاص ہوچکا ہے اس لیے اسے زندہ کے لیے استعمال نہیں کیا جاتا۔ 22۔ 6 یعنی یہی گروہ مومنین فلاح سے ہمکنار ہوگا دوسرے ان کی بہ نسبت ایسے ہی ہوں گے جیسے وہ فلاح سے بالکل محروم ہیں جیسا کہ واقعی وہ آخرت میں محروم ہوں گے۔