15۔ 1 اس مشقت و تکلیف کا ذکر والدین کے ساتھ حسن سلوک کے حکم میں مزید تاکید کے لیے ہے جس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ماں اس حکم احسان میں باپ سے مقدم ہے کیونکہ نو ماہ تک مسلسل حمل کی تکلیف اور پھر زچگی کی تکلیف صرف تنہا ماں ہی اٹھاتی ہے باپ کی اس میں شرکت نہیں اسی لیے حدیث میں بھی ماں کے ساتھ حسن سلوک کو اولیت دی گئی ہے اور باپ کا درجہ اس کے بعد بتلایا گیا ہے ایک صحابی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا میرے حسن سلوک کا سب سے زیادہ مستحق کون ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہاری ماں اس نے پھر یہی پوچھا آپ نے یہی جواب دیا تیسری مرتبہ بھی یہی جواب دیاچھوتھی مرتبہ پوچھنے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پھر تمہارا باپ۔ صحیح مسلم۔ 15۔ 2 فِصَا ل، ُ کے معنی، دودھ چھڑانا ہیں۔ اس سے بعض صحابہ نے استدلال کیا ہے کہ کم از کم مدت حمل چھ مہینے یعنی چھ مہینے کے بعد اگر کسی عورت کے ہاں بچہ پیدا ہوجائے تو وہ بچہ حلال ہی ہوگا، حرام نہیں۔ اس لئے کہ قرآن نے مدت رضاعت دو سال (24) مہینے بتلائی ہے، اس حساب سے مدت حمل صرف چھ مہینے ہی باقی رہ جاتی ہے۔ 15۔ 3 کمال قدرت (اَشْدُّہُ) کے زمانے سے مراد جوانی ہے، بعض نے اسے 18 سال سے تعبیر کیا ہے، حتٰی کہ پھر بڑھتے بھڑتے چالیس سال کی عمر کو پہنچ گیا یہ عمر قوائے عقلی کے مکمل بلوغ کی عمر ہے اسی لیے مفسرین کی رائے ہے کہ ہر نبی کو چالیس سال کے بعد ہی نبوت سے سرفراز کیا گیا۔ 15۔ 4 اَوْزِغنِیْ بمعنی اَلْھِمْنِیْ ہے، مجھے توفیق دے۔ اس سے استدلال کرتے ہوئے علماء نے کہا کہ اس عمر کے بعد انسان کو یہ دعا کثرت سے پڑھتے رہنا چاہئے۔ یعنی ربی اَوْزغْنِیْ سے مِنَ الْمُسْلِمیْنَ تک۔ کو پہنچ گیا، یہ عمر قوائے عقلی کے مکمل بلوغ کی عمر ہے۔ اس لئے مفسرین کی رائے ہے کہ ہر نبی کو چالیس سال کے بعد ہی نبوت سے سرفراز کیا گیا