عزیز مصر جس نے آپ علیہ السلام کو خریدا تھا اور بہت اچھی طرح اولاد کے مثل رکھا تھا اپنی گھر والی سے بھی تاکیداً کہا تھا کہ انہیں کسی طرح تکلیف نہ ہو عزت و اکرام سے انہیں رکھو۔ اس عورت کی نیت میں کھوٹ آ جاتی ہے۔ جمال یوسف علیہ السلام پر فریفتہ ہو جاتی ہے۔ دروازے بھیڑ کر بن سنور کر برے کام کی طرف یوسف علیہ السلام کو بلاتی ہے لیکن یوسف علیہ السلام بڑی سختی سے انکار کر کے اسے مایوس کر دیتے ہیں۔ آپ علیہ السلام فرماتے ہیں کہ تیرا خاوند میرا سردار ہے۔ اس وقت اہل مصر کے محاورے میں بڑوں کے لیے یہی لفظ بولا جاتا تھا۔ آپ علیہ السلام فرماتے ہیں تمہارے خاوند کی مجھ پر مہربانی ہے وہ میرے ساتھ سلوک و احسان سے پیش آتے ہیں۔ پھر کیسے ممکن ہے کہ میں ان کی خیانت کروں۔ یاد رکھو چیز کو غیر جگہ رکھنے والے بھلائی سے محروم ہو جاتے ہیں۔ «ھَیْتَ لَکَ» کو بعض لوگ سریانی زبان کا لفظ کہتے ہیں بعض قطبی زبان کا بعض اسے غریب لفظ بتلاتے ہیں۔ کسائی اسی قرأت کو پسند کرتے تھے اور کہتے تھے اہل حوران کا یہ لغت ہے جو حجاز میں آ گیا ہے۔
اہل حوران کے ایک عالم نے کہا ہے کہ یہ ہمارا لغت ہے۔ امام ابن جریر نے اس کی شہادت میں شعر بھی پیش کیا ہے۔ اس کے دوسری قرأت «ھئت» بھی ہے پہلی قرأت کے معنی تو آؤ کے تھے، اس کے معنی میں تیرے لیے تیار ہوں بعض لوگ اس قرأت کا انکار ہی کرتے ہیں۔ ایک قرأت ھئت بھی ہے۔ یہ قرأت غریب ہے۔ عام مدنی لوگوں کی یہی قرأت ہے۔ اس پر بھی شہادت میں شعر پیش کیا جاتا ہے۔ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں قاریوں کی قرأتیں قریب قریب ہیں پس جس طرح تم سکھائے گئے ہو پڑھتے رہو۔ گہرائی سے اور اختلاف سے اور لعن طعن سے اور اعتراض سے بچو اس لفظ کے یہی معنی ہیں کہ آ اور سامنے ہو وغیرہ۔ پھر آپ رضی اللہ عنہ نے اس لفظ کو پڑھا کسی نے کہا اسے دوسری طرح بھی پڑھتے ہیں آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا درست ہے مگر میں نے تو جس طرح سیکھا ہے اسی طرح پڑھوں گا۔ یعنی «ھَیتَ» نہ کہ «ھِیتُ» یہ لفظ تذکیر تانیث واحد تثنیہ جمع سب کے لیے یکساں ہوتا ہے۔ جیسے «ھَیْتَ لَکَ ھَیْتَ لَکُمْ ھَیْتَ لَکُمَا ھَیْتَ لَکُنَّ ھَیْتَ لَھُنَّ» ۔