تفسير ابن كثير



شوق زیارت اور بڑھتا ہے ٭٭

«مثابتہ» سے مراد باربار آنا۔ حج کرنے کے بعد بھی دل میں لگن لگی رہتی ہے گویا حج کرنے کے بعد بھی ہر بار دل میں ایک بار اور حج کرنے کی تمنا رہتی ہے دنیا کے ہر گوشہ سے لوگ بھاگے دوڑے اس کی طرف جوق در جوق چلے آ رہے ہیں یہی جمع ہونے کی جگہ ہے اور یہی امن کا مقام ہے جس میں ہتھیار نہیں اٹھایا جاتا جاہلیت کے زمانہ میں بھی اس کے آس پاس تو لوٹ مار ہوتی رہتی لیکن یہاں امن و امان ہی رہتا کوئی کسی کو گالی بھی نہیں دیتا۔ یہ جگہ ہمیشہ متبرک اور شریف رہی۔ نیک روحیں اس کی طرف مشتاق ہی رہتی ہیں گو ہر سال زیارت کریں لیکن پھر بھی شوق زیارت کم نہیں ہوتا ہے۔ یہ ابراہیم علیہ السلام کی دعا کا اثر ہے۔ آپ علیہ السلام نے دعا مانگی تھی کہ آیت «فَاجْعَلْ اَفْىِٕدَةً مِّنَ النَّاسِ تَهْوِيْٓ اِلَيْهِمْ وَارْزُقْهُمْ مِّنَ الثَّمَرٰتِ لَعَلَّهُمْ يَشْكُرُوْنَ» [ 14۔ ابرہیم: 37 ] ‏‏‏‏ تو لوگوں کے دلوں کو ان کی طرف جھکا دے۔ یہاں باپ اور بھائی کے قاتل کو بھی کوئی دیکھتا تو خاموش ہو جاتا۔ سورۃ المائدہ میں «جَعَلَ اللَّـهُ الْكَعْبَةَ الْبَيْتَ الْحَرَامَ قِيَامًا لِّلنَّاسِ» [ 5-المائدة: 97 ] ‏‏‏‏ یعنی یہ لوگوں کے قیام کا باعث ہے۔

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اگر لوگ حج کرنا چھوڑ دیں تو آسمان زمین پر گرا دیا جائے۔ اس گھر کے اس شرف کو دیکھ کر پھر اس کے بانی اول ابراہیم خلیل علیہ السلام کے شرف کو خیال فرمائے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے آیت «وَاِذْ بَوَّاْنَا لِاِبْرٰهِيْمَ مَكَانَ الْبَيْتِ اَنْ لَّا تُشْرِكْ بِيْ شَيْـــــًٔا وَّطَهِّرْ بَيْتِيَ لِلطَّاىِٕفِيْنَ وَالْقَاىِٕمِيْنَ وَالرُّكَّعِ السُّجُوْدِ» [ 22۔ الحج: 26 ] ‏‏‏‏ ہم نے بیت اللہ کی جگہ ابراہیم کو بتا دی [ اور کہہ دیا ] ‏‏‏‏ کہ میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا اور جگہ ہے آیت «اِنَّ اَوَّلَ بَيْتٍ وُّضِــعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِيْ بِبَكَّةَ مُبٰرَكًا وَّھُدًى لِّـلْعٰلَمِيْنَ فِيهِ آيَاتٌ بَيِّنَاتٌ مَّقَامُ إِبْرَاهِيمَ وَمَن دَخَلَهُ كَانَ آمِنًا» [ 3۔ آل عمران: 97، 96 ] ‏‏‏‏ اللہ جل شانہ کا پہلا گھر مکہ میں جو برکت و ہدایت والا نشانیوں والا مقام ابراہیم والا امن و امان والا ہے مقام ابراہیم بھی ہے۔

اور حج کل کا کل بھی ہے مثلاً عرفات، مشعر الحرام، منیٰ، رمی، جمار، صفا مروہ کا طواف، مقام ابراہیم دراصل وہ پتھر ہے جسے اسمٰعیل علیہ السلام کی بیوی صاحبہ نے ابراہیم علیہ السلام کے نہانے کے لیے ان کے پاؤں کے نیچے رکھا تھا، [تفسیر ابن جریر الطبری:35/3] ‏‏‏‏ لیکن سعید بن جیر رحمہ اللہ کہتے ہیں یہ غلط ہے۔ دراصل وہ یہ پتھر ہے جس پر کھڑے ہو کر حضرات ابراہیم علیہ السلام کعبہ بناتے تھے سیدنا جابر رضی اللہ تعالیٰ کی لمبی حدیث میں ہے جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے طواف کر لیا تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے مقام ابراہیم کی طرف اشارہ کر کے کہا۔ کیا یہی ہمارے باپ ابراہیم علیہ السلام کا مقام ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں کہا پھر ہم اسے قبلہ کیوں نہ بنا لیں؟ اس پر آیت نازل ہوئی۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:35/3] ‏‏‏‏

ایک اور روایت میں ہے کہ فاروق رضی اللہ عنہ کے سوال پر تھوڑی ہی دیر گزری تھی جو حکم نازل ہوا۔ [النسائی فی السنن الکبریٰ:10998] ‏‏‏‏ ایک اور حدیث میں ہے کہ فتح مکہ والے دن مقام ابراہیم کے پتھر کی طرف اشارہ کر کے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا یہی ہے جسے قبلہ بنانے کا ہمیں حکم ہوا ہے؟ آپ نے فرمایا ہاں یہی ہے۔ [تفسیر ابن ابی حاتم:370:صحیح] ‏‏‏‏ صحیح بخاری شریف میں ہے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے اپنے رب سے تین باتوں میں موافقت کی جو اللہ تعالیٰ کو منظور تھا وہی میری زبان سے نکلا میں نے کہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کاش کہ ہم مقام ابراہیم علیہ السلام کو قبلہ بنا لیتے تو حکم آیت «وَاتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرٰهٖمَ مُصَلًّى» [ 2۔ البقرہ: 125 ] ‏‏‏‏ نازل ہوا میں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاش کہ آپ امہات المؤمنین کو پردے کا حکم دیں اس پر پردے کی آیت اتری جب مجھے معلوم ہوا کہ آج نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیویوں سے خفا ہیں تو میں نے جا کر ان سے کہا کہ اگر تم باز نہ آؤ گی تو اللہ تعالیٰ تم سے اچھی بیویاں تمہارے بدلے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دے گا اس پر فرمان بازی نازل ہوا کہ آیت «عَسَىٰ رَبُّهُ إِن طَلَّقَكُنَّ أَن يُبْدِلَهُ أَزْوَاجًا خَيْرًا مِّنكُنَّ» [ 66-التحريم: 5 ] ‏‏‏‏

اس حدیث کی بہت سی اسناد ہیں اور بہت سی کتابوں میں مروی ہے۔ [صحیح مسلم:2399] ‏‏‏‏ایک روایت میں بدر کے قیدیوں کے بارے میں بھی سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی موافقت مروی ہے آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا کہ اس سے فدیہ نہ لیا جائے بلکہ انہیں قتل کر دیا جائے اللہ سبحانہ تعالیٰ کو بھی یہی منظور تھا۔ [صحیح مسلم:1218] ‏‏‏‏ عبداللہ بن ابی بن سلول منافق جب مر گیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کے جنازے کی نماز ادا کرنے کے لیے تیار ہوئے تو میں نے کہا تھا کہ کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس منافق کافر کا جنازہ پڑھیں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ڈانٹ دیا اس پر آیت «وَلَا تُصَلِّ عَلٰٓي اَحَدٍ مِّنْهُمْ مَّاتَ اَبَدًا وَّلَا تَقُمْ عَلٰي قَبْرِهٖ» [ 9۔ التوبہ: 84 ] ‏‏‏‏ نازل ہوئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسوں کے جنازے سے روکا گیا۔

ابن جریج میں روایت ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے طواف میں تین مرتبہ رمل کیا یعنی دوڑ کی چال چلے اور چار پھیرے چل کر کئے پھر مقام ابراہیم کے پیچھے آ کر دو رکعت نماز ادا کی اور یہ آیت تلاوت فرمائی آیت «وَاتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرٰهٖمَ مُصَلًّى» [ 2۔ البقرہ: 125 ] ‏‏‏‏ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ مقام ابراہیم کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اور بیت اللہ کے درمیان کر لیا تھا۔ ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ مقام ابراہیم سے مراد وہ پتھر ہے جس پر کھڑے ہو کر ابراہیم علیہ السلام کعبہ بنا رہے تھے اسماعیل علیہ السلام آپ کو پتھر دیتے جاتے تھے اور آپ علیہ السلام کعبہ کی بنا کرتے جاتے تھے اور اس پتھر کو سرکاتے جاتے تھی جہاں دیوار اونچی کرنی ہوتی تھی وہاں لیجاتے تھے اسی طرح کعبہ کی دیواریں پوری کیں اس کا پورا بیان ابراہیم علیہ السلام کے واقعہ میں آئے گا ان شاءاللہ تعالیٰ۔ اس پتھر پر آپ علیہ السلام کے دونوں قدموں کے نشان ظاہر تھے عرب کی جاہلیت کے زمانہ کے لوگوں نے بھی دیکھے تھے۔ ابوطالب نے اپنے مشہور قصیدہ میں کہا ہے و «موطی ابراہیم فی الصخر رطبتہ» «علی قدمیہ حایا غیر ناعل»

یعنی اس پتھر میں ابراہیم علیہ السلام کے دونوں پیروں کے نشان تازہ بتازہ ہیں جن میں جوتی نہیں بلکہ مسلمانوں نے بھی اسے دیکھا تھا سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے مقام ابراہیم میں خلیل اللہ کے پیروں کی انگلیوں اور آپ علیہ السلام کے تلوے کا نشان دیکھا تھا پھر لوگوں کے چھونے سے وہ نشان مٹ گئے حضرت قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں حکم اس کی جانب نماز ادا کرنے کا ہے تبرک کے طور پر چھونے اور ہاتھ لگانے کا نہیں اس امت نے بھی اگلی امتوں کی طرح بلا حکم الہ العالمین بعض کام اپنے ذمہ لازم کر لیے جو نقصان رساں ہیں وہ نشان لوگوں کے ہاتھ لگانے سے مٹ گئے۔ یہ مقام ابراہیم پہلے دیوار کعبہ کے متصل تھا کعبہ کے دروازے کی طرف حجر اسود کی جانب دروازے سے جانے والے کے دائیں جانب مستقل جگہ پر تھا جو آج بھی لوگوں کو معلوم ہے خلیل اللہ نے یا تو اسے یہاں رکھوا دیا تھا یا بیت اللہ بناتے ہوئے آخری حصہ یہی بنایا ہو گا اور یہیں وہ پتھر رکھا ہے۔

امیرالمؤمنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اپنی خلافت کے زمانہ میں اسے پیچھے ہٹا دیا اس کے ثبوت میں بہت سی روایتیں ہیں پھر ایک مرتبہ پانی کے سیلاب میں یہ پتھر یہاں سے بھی ہٹ گیا تھا خلیفہ ثانی نے اسے پھر اپنی جگہ رکھوا دیا حضرت سفیان رحمہ اللہ فرماتے ہیں مجھے معلوم نہیں ہوا کہ یہ اصلی جگہ سے ہٹایا گیا اس سے پہلے دیوار کعبہ سے کتنی دور تھا ایک روایت میں ہے کہ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی اصلی جگہ سے ہٹا کر وہاں رکھا تھا جہاں اب ہے لیکن یہ روایت مرسل ہے ٹھیک بات یہی ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اسے پیچھے رکھا، «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔



https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.