43۔ 1 یعنی پچھلی قوموں نے اپنے پیغمبروں کی تکذیب کے لئے جو کچھ کہا یہ ساحر ہیں، مجنون ہیں، کذاب ہیں وغیرہ وغیرہ، وہی کچھ کفار مکہ نے بھی آپ کو کہا۔ یہ گویا آپ کو تسلی دی جا رہی ہے کہ آپکی تکذیب اور آپ کی سحر، کذب اور جنون کی طرف نسبت، نئی نہیں ہے، ہر پیغمبر کے ساتھ یہی کچھ ہوتا آیا ہے جیسے دوسرے مقام پر فرمایا (مَآ اَتَى الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ مِّنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا قَالُوْا سَاحِرٌ اَوْ مَجْنُوْنٌ 52ۚ اَتَوَاصَوْا بِهٖ ۚ بَلْ هُمْ قَوْمٌ طَاغُوْنَ 53ۚ) 51۔ الزایات:53-52) دوسرا مطلب اس کا یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے رسولوں کو بھی کہی گئی تھیں اس لیے کہ تمام شریعتیں ان باتوں پر متفق رہی ہیں بلکہ سب کی اولین دعوت ہی توحید و اخلاص تھی۔ (فتح القدیر)۔ 43۔ 2 یعنی اہل ایمان و توحید کے لئے جو مستحق مغفرت ہیں۔ 43۔ 3 ان کے لئے جو کافر اور اللہ کے پیغمبروں کے دشمن ہیں۔ یہ آیت بھی سورة حجر کی آیت کی طرح ہے۔