تفسير ابن كثير



مکمل اسلام ٭٭

سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں اس سے مراد پورا اسلام ہے جس کے تیس حصے ہیں دس کا بیان سورہ براءت میں ہے «التَّائِبُونَ الْعَابِدُونَ الْحَامِدُونَ السَّائِحُونَ الرَّاكِعُونَ السَّاجِدُونَ الْآمِرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَالنَّاهُونَ عَنِ الْمُنكَرِ وَالْحَافِظُونَ لِحُدُودِ اللَّـهِ وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِينَ» [9-التوبة:112] ‏‏‏‏ یعنی ” توبہ کرنا، عبادت کرنا، حمد کرنا، اللہ کی راہ میں پھرنا، رکوع کرنا، سجدہ کرنا، بھلائی کا حکم دینا، برائی سے روکنا، اللہ کی حدود کی حفاظت کرنا، ایمان لانا “۔

دس کا بیان «قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ» * «الَّذِينَ هُمْ فِي صَلَاتِهِمْ خَاشِعُونَ» * «وَالَّذِينَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُونَ» * «وَالَّذِينَ هُمْ لِلزَّكَاةِ فَاعِلُونَ» * «وَالَّذِينَ هُمْ لِفُرُوجِهِمْ حَافِظُونَ» * «إِلَّا عَلَىٰ أَزْوَاجِهِمْ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ فَإِنَّهُمْ غَيْرُ مَلُومِينَ» * «فَمَنِ ابْتَغَىٰ وَرَاءَ ذَٰلِكَ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْعَادُونَ» * «وَالَّذِينَ هُمْ لِأَمَانَاتِهِمْ وَعَهْدِهِمْ رَاعُونَ» * «وَالَّذِينَ هُمْ عَلَىٰ صَلَوَاتِهِمْ يُحَافِظُونَ» * «أُولَـٰئِكَ هُمُ الْوَارِثُونَ» [23-سورةالمؤمنون:1-10] ‏‏‏‏ «يُحَافِظُونَ» تک ہے۔

اور سورۃ المعارج میں ہے یعنی نماز کو خشوع خضوع سے ادا کرنا لغو اور فضول باتوں اور کاموں سے منہ پھیر لینا، زکوٰۃ دیتے رہا کرنا، شرمگاہ کی حفاظت کرنا، امانت داری کرنا، وعدہ وفائی کرنا، نماز پر ہمیشگی اور حفاظت کرنا قیامت کو سچا جاننا، عذابوں سے ڈرتے رہنا سچی شہادت پر قائم رہنا۔

اور دس کا بیان سورۃ الاحزاب میں آیت «إِنَّ ٱلْمُسْلِمِينَ وَٱلْمُسْلِمَٰتِ وَٱلْمُؤْمِنِينَ وَٱلْمُؤْمِنَٰتِ وَٱلْقَٰنِتِينَ وَٱلْقَٰنِتَٰتِ وَٱلصَّٰدِقِينَ وَٱلصَّٰدِقَٰتِ وَٱلصَّٰبِرِينَ وَٱلصَّٰبِرَٰتِ وَٱلْخَٰشِعِينَ وَٱلْخَٰشِعَٰتِ وَٱلْمُتَصَدِّقِينَ وَٱلْمُتَصَدِّقَٰتِ وَٱلصَّٰٓئِمِينَ وَٱلصَّٰٓئِمَٰتِ وَٱلْحَٰفِظِينَ فُرُوجَهُمْ وَٱلْحَٰفِظَٰتِ وَٱلذَّٰكِرِينَ ٱللَّهَ كَثِيرًا وَٱلذَّٰكِرَٰتِ أَعَدَّ ٱللَّهُ لَهُم مَّغْفِرَةً وَأَجْرًا عَظِيمًا» [33۔الاحزاب:35] ‏‏‏‏ تک ہے یعنی اسلام لانا، ایمان رکھنا، قرآن پڑھنا، سچ بولنا، صبر کرنا، عاجزی کرنا، خیرات دینا، روزہ رکھنا، بدکاری سے بچنا، اللہ تعالیٰ کا ہر وقت بکثرت ذکر کرنا، ان تینوں احکام کا جو عامل ہو وہ پورے اسلام کا پابند ہے اور اللہ کے عذابوں سے بری ہے۔

کلمات ابراہیمی میں اپنی قوم سے علیحدگی کرنا بادشاہ وقت سے نڈر ہو کر اسے بھی تبلیغ کرنا پھر اللہ تعالیٰ کی راہ میں جو مصیبت آئے اس پر صبر کرنا سہنا پھر وطن اور گھربار کو اللہ کی راہ میں چھوڑ کر ہجرت کرنا مہمانداری کرنا اللہ کی راہ میں جانی اور مالی مصیبت راہ اللہ برداشت کرنا یہاں تک کہ بچہ کو اللہ کی راہ قربان کرنا اور وہ بھی اپنے ہی ہاتھ سے یہ کل احکام خلیل الرحمن علیہ السلام بجا لائے۔ سورج چاند اور ستاروں سے بھی آپ علیہ السلام کی آزمائش ہوئی امامت کے ساتھ بیت اللہ بنانے کے حکم کے ساتھ حج کے حکم اور مقام ابراہیم کے ساتھ بیت اللہ کے رہنے والوں کی روزیوں کے ساتھ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ علیہ السلام کے دین پر بھیجنے کے ساتھ بھی آزمائش ہوئی اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے خلیل میں تمہیں آزماتا ہوں دیکھتا ہوں تم کیا ہو؟ تو آپ علیہ السلام نے فرمایا مجھے لوگوں کا امام بنا دے، اس کعبہ کو لوگوں کے ثواب اور اجتماع کا مرکز بنا دے، یہاں والوں کو پھلوں کی روزیاں دے یہ تمام باتیں اللہ عزوجل نے پوری کر دیں اور یہ سب نعمتیں آپ علیہ السلام کو عطا ہوئیں صرف ایک آرزو پوری نہ ہوئی وہ یہ کہ میری اولاد کو بھی امامت ملے تو جواب ملا ظالموں کو میرا عہد نہیں پہنچتا کلمات سے مراد اس کے ساتھ کی آیتیں بھی ہیں۔

موطا وغیرہ میں ہے کہ سب سے پہلے ختنہ کرانے والے سب سے پہلے مہمان نوازی کرنے والے سب سے پہلے ناخن کٹوانے والے سب سے پہلے مونچھیں پست کرنے والے سب سے پہلے سفید بال دیکھنے والے ابراہیم ہی ہیں علیہ السلام سفید بال دیکھ کر پوچھا کہ اے اللہ یہ کیا ہے؟ جواب ملا وقار و عزت ہے کہنے لگے پھر تو اے اللہ اسے اور زیادہ کر۔ [مؤطا:کتاب صفة النبی922/2:مقطوع] ‏‏‏‏ سب سے پہل منبر پر خطبہ کہنے والے، سب سے پہلے قاصد، بھیجنے والے، سب سے پہلے تلوار چلانے والے، سب سے پہلے مسواک کرنے والے سب سے پہلے پانی کے ساتھ استنجاء کرنے والے، سب سے پہلے پاجامہ پہننے والے ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام ہیں۔ ایک غیر ثابت حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر میں منبر بناؤں تو میرے باپ ابراہیم علیہ السلام نے بھی بنایا تھا اور اگر میں لکڑی ہاتھ میں رکھوں تو یہ بھی میرے باپ ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے۔ [بزار:633:منکر و ضعیف] ‏‏‏‏ مختلف بزرگوں سے کلمات کی تفسیر میں جو کچھ ہم نے نقل کر دیا اور ٹھیک بھی یہی ہے کہ یہ سب باتیں ان کلمات میں تھیں کسی خاص تخصیص کی کوئی وجہ ہمیں نہیں ملی۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ»

صحیح مسلم شریف میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے دس باتیں فطرت کی اور اصل دین کی ہیں مونچھیں کم کرنا، داڑھی بڑھانا، مسواک کرنا، ناک میں پانی دینا، ناخن لینا، پوریان دھونی، بغل کے بال لینا، زیر ناف کے بال لینا، استنجاء کرنا راوی کہتا ہے میں دسویں بات بھول گیا شاید کلی کرنا تھی۔ [صحیح مسلم:261] ‏‏‏‏

صحین میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں پانچ باتیں فطرت کی ہیں ختنہ کرانا، موئے [ بال ] ‏‏‏‏ زہار لینا، مونچھیں کم کرنا، ناخن لینا، بغل کے بال لینا۔ [صحیح بخاری:5889] ‏‏‏‏ ایک حدیث میں ہے کہ ابراہیم علیہ السلام کو وفا کرنے والا اس لیے فرمایا ہے کہ وہ ہر صبح کے وقت پڑھتے تھے آیت «فَسُـبْحٰنَ اللّٰهِ حِيْنَ تُمْسُوْنَ وَحِيْنَ تُصْبِحُوْنَ وَلَهُ الْحَمْــدُ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَعَشِـيًّا وَّحِيْنَ تُظْهِرُوْنَ يُخْرِجُ الْـحَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ وَيُخْرِجُ الْمَيِّتَ مِنَ الْـحَيِّ وَيُـحْيِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا وَكَذٰلِكَ تُخْرَجُوْنَ» [ 30۔ الروم: 17 ] ‏‏‏‏ ایک اور روایت میں ہے کہ ہر دن چار رکعتیں پڑھتے تھے۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:15/3:ضعیف جدا] ‏‏‏‏ لیکن یہ دونوں حدیثیں ضعیف ہیں اور ان میں کئی کئی راوی ضعیف ہیں اور ضعف کی بہت سی وجوہات ہیں بلکہ ان کا بیان بھی بیبیان ضعف جائز نہیں متن بھی ضعف پر دلالت کرتا ہے۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنی امت کی خوشخبری سن کر اپنی اولاد کے لیے بھی یہی دعا کرتے تھے جو قبول تو کی جاتی ہے لیکن ساتھ ہی خبر کر دی جاتی ہے کہ آپ کی اولاد میں ظالم بھی ہوں گے جنہیں اللہ تعالیٰ کا عہد نہ پہنچے گا وہ امام نہ بنائے جائیں گے نہ ان کی اقتدار اور پیروی کی جائے گی سورۃ العنکبوت کی آیت میں اس مطلب کو واضح کر دیا گیا ہے کہ خلیل اللہ کی یہ دعا بھی قبول ہوئی وہاں ہے آیت «وَجَعَلْنَا فِيْ ذُرِّيَّتِهِ النُّبُوَّةَ وَالْكِتٰبَ وَاٰتَيْنٰهُ اَجْرَهٗ فِي الدُّنْيَا» [ 29۔ العنکبوت: 27 ] ‏‏‏‏ یعنی ہم نے ان کی اولاد میں نبوت اور کتاب رکھ دی۔ ابراہیم علیہ السلام کے بعد جتنے انبیاء اور رسول آئے وہ سب آپ علیہ السلام ہی کی اولاد میں تھے اور جتنی کتابیں نازل ہوئیں سب آپ علیہ السلام ہی کی اولاد میں ہوئی دعا «صلوات اللہ وسلامہ علیہم اجمعین»

یہاں یہ بھی خبر دی گئی ہے کہ آپ علیہ السلام کی اولاد میں ظلم کرنے والے بھی ہوں گے، ظالم سے مرد بعض نے مشرک بھی لیا ہے عہد سے مراد امر ہے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ظالم کو کسی چیز کا والی اور بڑا نہ بنانا چاہیئے گو وہ اولاد ابراہیم علیہ السلام میں سے ہو، خلیل اللہ کی دعا ان کی نیک اولاد کے حق میں قبول ہوئی ہے یہ بھی معنی کئے گئے ہیں کہ ظالم سے کوئی عہد نہیں کہ اس کی اطاعت کی جائے اس کا عہد توڑ دیا جائے پورا نہ کیا جائے اور یہ بھی مطلب ہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ نے اسے کچھ دینے کا عہد نہیں کیا دنیا میں تو کھا پی رہا ہے اور عیش و عشرت کر رہا ہے۔ بس یہی ہے عہد سے مراد دین بھی ہے یعنی تیری کل اولاد دیندار نہیں جیسے اور جگہ ہے آیت «ووَمِن ذُرِّيَّتِهِمَا مُحْسِنٌ وَظَالِمٌ لِّنَفْسِهِ مُبِينٌ» [ 37۔ الصافات: 113 ] ‏‏‏‏ یعنی ان کی اولاد میں بھلے بھی ہیں اور برے بھی اطاعت کے معنی بھی کئے گئے ہیں یعنی اطاعت صرف معروف اور بھلائی میں ہی ہو گی اور عہد کے معنی نبوت کے بھی آئے ہیں ابن خویز منذاذ مالکی رحمہ اللہ فرماتے ہیں ظالم شخص نہ تو خلیفہ بن سکتا ہے نہ حاکم نہ مفتی نہ گواہ نہ راوی۔



https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.